ہر شخص کا کسی شے کو دیکھنے ، پرکھنے اور اس کے بارے میں سوچنے کا انداز دوسرے سے مختلف ہوتا ہے کیونکہ ہرانسان کی عمر ، تعلیم ، تجربہ اور مہارت الگ ہوتی ہے ، اسی کی بنیاد پر وہ کسی ایشو پر اپنی جداگانہ رائے رکھتا ہے ۔ دوافراد کی رائے میں کچھ نہ کچھ مماثلت (Resemblance) تو ہوسکتی ہے تاہم 100فیصد اتفاق ہونادُشوار ترین ہے۔ گھر میں آج کیا پکے گا؟ کس کمپنی کا فریج خریدا جائے گا؟ پردے کس رنگ کے لگیں گے؟ رشتے کے لئے ہاں کہی جائے گی یا نہیں ؟شادی کی تاریخ کیا رکھنی ہے؟ آفس میں کس قسم کا فرنیچر آئے گا؟ڈریس کوڈ کیا ہوگا؟ جامعہ کا نصاب(Syllabus) کیا ہوگا؟ کون سا سبق کونسا ٹیچر پڑھائے گا؟ سفر ٹرین کے ذریعے ہوگا یا بس سے؟ اس طرح کےچھوٹے بڑے ہزاروں ایشوز پر مختلف لوگوں(میاں بیوی ، ماں بیٹی ، باپ بیٹا ، دوسگے بھائیوں ، دوستوں وغیرہ) کے درمیان اختلافِ رائے ہوسکتا ہے۔ الغرض!اختلافِ رائے ہماری معاشرتی ، سماجی اور گھریلو زندگی کا حصہ ہے اورہم سب شعوری طور پر اسے تسلیم بھی کرتے ہیں ۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بہت مرتبہ اختلاف رائے بڑھ کر جھگڑے کی صورت اختیار کرلیتا ہے جس سے معاشرے (Society) میں بگاڑ بڑھتا ہے ، اگر اختلافِ رائے کے آداب پر عمل کرلیا جائے تو بات بگڑنے سے بچا جاسکتا ہے۔
اختلافِ رائے کے 10 آداب :
(1)اختلافِ رائے کے اظہار سے پہلے کھلے ذہن کے ساتھ اپنی رائے پر پہلے خود غور کرلیں کہ کہیں میں غلطی پر تو نہیں ؟ پھر اگر اپنی رائے غلط ثابت ہوتو اندر کی بات کو اندر ہی ختم کر ڈالیں اور قلبی سکون پائیں۔
(2)اگر آپ کو اپنی رائے دُرست لگے تو دیکھ لیجئے کہ اس کا اظہار ضروری بھی ہے یا نہیں؟ کیونکہ ہر اختلافِ رائے کا اظہار ضروری نہیں ہوتا بالخصوص ایسی جگہ پر جہاں خاموش رہنے میں کوئی نقصان نہ ہورہا ہو مثلاً چائے کھانے کے بعد پی جائے یا تھوڑا ٹھہر کر ؟ یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے جس پر دوسروں سے اُلجھا جائے ، ہاں! آپ سے رائے لی جائے تو بتادیجئے ۔
(3)ہرجگہ اختلافِ رائے کا حق جتاکر بحث مباحثہ میں نہ کُودیں کیونکہ بن مانگے اپنی رائے دینے سے قدرو قیمت (Value) جاتی رہتی ہے ، ہوسکتا ہے کہ لوگ آپ سے چِڑنے لگیں کہ یہ ہر معاملے میں ٹانگ اَڑا دیتا ہے ، اس لئے حتی الامکان پوچھے جانے پر ہی اپنی رائے دیجئے۔
(4)اختلافِ رائے کے اظہار کا انداز مہذب اور شائستہ ہونا چاہئے ، طنزیہ اندازِ گفتگو ، دوسروں کو جاہل اور بے وقوف قرار دینا ، جھاڑنا ، جارحانہ انداز اختیار کرنا دوسروں کے لئے باعثِ تکلیف ہوتا ہے اور آپ کا امپریشن بھی بگڑتا ہے۔
(5)دوسروں کے اختلافِ رائے کے حق کو بھی تسلیم کریں ، بحث کرکے انہی کو اپنی رائے بدلنے پر مجبور نہ کریں بلکہ گفتگو کے نتیجے میں آپ پر اپنی رائے کی غلطی ظاہر ہو تو اسے دُرُست کرکے بڑے پن کا مظاہرہ کیجئے ۔
(6)اگر دونوں فریق اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہوں اور فیصلہ کرنا بھی ضروری ہو تو کسی باصلاحیت اور ماہر شخص سے اپنے اختلافِ رائے کا فیصلہ کروا لیں۔
(7)اگر آپ کی رائے کو فوقیت مل جائے تو شیخیاں نہ بگھاریں کہ دیکھا میں نے اسے کیسا خاموش کروایا ، میرے سامنے تو بڑے بڑے بولنا بُھول جاتے ہیں۔
(8)آپ غالب ہوں یا مغلوب! دونوں صورتوں میں فریقِ ثانی کی غیبتوں میں نہ پڑیں ، اس پر تہمتیں نہ لگائیں اور نہ ہی اپنے دل میں اس کا بُغض بٹھائیں۔
(9)اختلاف رائے کو اپنے اور سامنے والے فریق تک محدود رکھیں بلاضرورت تیسرے کواس کی ہوا بھی نہ لگنے دیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس طرف ہماری بالکل توجہ نہیں ، اوپر سے سوشل میڈیا واٹس ایپ ، ٹوئیٹر ، فیس بک وغیرہ نے ایسی آسانیاں دے دی ہیں کہ کوئی بھی نادان اپنے گھر ، گلی محلے یا دوستوں کے درمیان ہونے والی بات کو پوری دنیا کے سامنے پیش کرسکتا اور اپنی جگ ہنسائی کروا سکتا ہے۔ اللہ پاک ایسوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے۔
(10) اختلاف رائے کسی سے بھی ہو! اس کے نتیجے میں آپسی تعلقات میں کھنچاؤ نہ آنے دیں ۔ اس حوالے سے بہت ہی پیاری دلچسپ حکایت پڑھئے :
بھائی چارے پر اثر نہیں پڑنا چاہئے : حضرت سیدنا یونس صدفی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت سیدنا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ عقل مند کوئی نہیں دیکھا۔ ایک دن میں نے کسی مسئلے پر ان سے مناظرہ کیا اور پھر ہم جدا ہوگئے ، جب دوبارہ ملاقات ہوئی تو آپ نے میرا ہاتھ تھام کر ارشاد فرمایا : اے ابوموسیٰ!کیا یہ اچھا نہیں کہ کسی مسئلے پر متفق نہ ہونے کے باوجود ہم بھائیوں کی طرح رہیں۔ (سیر اعلام النبلاء ، 8 / 382)
اللہ پاک ہمیں اپنا اخلاق وکردار بہتر بنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*…چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments