ارے بیٹا! صبح توآپ کے پاپا نے آپ کو پاکٹ منی دی تھی ، آپ پھر پیسے مانگ رہے ہو؟ مَظہر اسکول سے واپس آنے کے بعد سے مسلسل پیسوں کا تقاضا کر رہا تھا تو والدہ نےٹوکا۔ اُس نے مُنہ بنا کر کہا : امّی!اُن سے تو میں نے بریک ٹائم میں سموسے کھا لئے تھے ، ابھی مجھے کاپی خریدنے کے لئے پیسے چاہئیں۔
والدہ اُس کی بات سُن کرمسکرا دیں اور بولیں : آپ کو کاپی چاہئے نا ، وہ میں دے دیتی ہوں۔ یہ کہہ کر والدہ کمرے میں گئیں اور نئی کاپی لاکر اُسے دے دی۔
پہلے تو کاپی دیکھ کرمَظہر کا منہ ایسے بگڑ گیا جیسے منہ میں کڑوی گولی آ گئی ہو لیکن پھر اُس نے کاپی لی اور دیکھتے ہوئے بولا : لیکن امّی! یہ تو اُردو کی کاپی ہے ، مجھے انگلش والی چاہئے۔
ابھی مظہرکا جملہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ والدہ کہنے لگیں : اچّھا بھئی! آج تو لگتا ہے کہ آپ پیسے لے کر ہی جان چھوڑو گے۔ یہ کہہ کر کمرے سے100روپے لا کر مظہر کو دیتے ہوئے کہا : جاؤ! کاپی لے آؤ اور جو پیسے بچیں وہ مجھے واپس لادینا۔
پیسے ملتے ہی مظہر کاچہرہ خوشی سے چمکنے لگا اور فوراً مین گیٹ کی طرف بھاگا ، والدہ نے اُسے دوڑتا دیکھ کر کہا : یونیفارم میلا مت کرو ، پہلے کپڑے بدل لو دُکان والا کہیں بھاگا نہیں جا رہا۔ یہ سُن کر مظہر نے کھسیانی سی ہنسی ہنستے ہوئے “ جی امّی “ کہا اور اپنے رُوم کی طرف مڑ گیا۔
کپڑے بدل کر مظہر باہر جا چکا تو والدہ کو كچھ خیال آیا اور وہ مظہر کے کمرے میں آ کر اس کا بیگ کھول کر دیکھنے لگیں ، لیکن یہ دیکھ کر حیرانی کے ساتھ ساتھ انہیں غصّہ بھی آیا کہ انگلش کی کاپی ابھی آدھی سے زیادہ خالی تھی ، مطلب یہ کہ مظہر نے جھوٹا بہانہ بنا کر پیسے لئے تھے۔
گھر سے نکل کر مظہر سیدھا آئس کریم لینے دُکان پر پہنچ کر کہنے لگا : انکل مینگو فلیور دے دیں۔ جلدی سے آئس کریم ختم کر کے جب اس نے پیسے دینے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا کیونکہ جیب خالی تھی ، جلد بازی میں وہ پیسے یونیفارم کی جیب میں ہی بھول آیا تھا۔ مظہر نے گھبراتے ہوئے کہا : انکل انکل!! میں پیسے لانا بھول گیا ابھی بھاگ کر لاتا ہوں۔
گھر میں داخل ہونے کے بعد جیسے ہی اپنے کمرے میں پہنچا تو سامنے امّی کو دیکھ کر پریشان ہو گیا ، امّی آپ یہاں! امّی نے اس کواپنے پاس صوفے پر بٹھاتے ہوئےپوچھا : ہاں بس ایسے ہی آئی تھی ، تم کاپی لے آئے؟
وہ امّی میں ابھی جاؤں گا لینے ، پیسے یہیں بھول گیا تھا۔ اچّھا تو جو کاپی بیگ میں ہے وہ کب کام آئے گی ، امّی کے اس سوال پرمظہر کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا جواب دے کیونکہ اس کا جھوٹ پکڑا گیا تھا۔ پھر اس نے ساری بات بتادی کہ پیسے لینے کا مقصد آئس کریم کھانا تھا۔
بیٹا! آپ نے شیراورگَڈَرْیا(بھیڑ بکریاں چرانے والے) والی کہانی تو سُنی ہوئی ہے ناں؟ والدہ کے پوچھنے پر مظہر بولا : جی امّی جان! وہی جس میں گَڈَرْیا شیر آنے کی جُھوٹی خبر دے کر لوگوں کو بلاتا تھا ، میں نے کورس بُک میں پڑھی تھی۔
تو بیٹا آپ کو یاد ہوگا ایک دن سچ مچ شیر آنے پر کسی نے بھی اس کی بات کا اعتبار نہیں کیا تھا ، ایسے ہی ہر جُھوٹے شخص کے ساتھ ہوتا ہے رَفْتہ رَفْتہ لوگ اس کی باتوں پر اعتبار کرنا چھوڑ دیتے ہیں ، جُھوٹ سے اگرچہ کام نِکل جاتا ہے لیکن اس سے انسان کا امیج خراب ہوجاتا ہے اور جھوٹ سامنے آنے پر لوگوں کے سامنے شرمندگی بھی اٹھانی پڑتی ہے ، اور بیٹا یاد رکھو! جھوٹ بولنے سے اللہ پاک ناراض ہوتا ہے اور جھوٹے پر اللہ پاک کی لعنت ہوتی ہے۔
مظہر نے شرمندگی سے نظریں جُھکا کر کہا : مجھے مُعاف کر دیجئے امّی! میں آئندہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔ شاباش میرا بچّہ! اچّھا اب جلدی سے انکل کو پیسے دے آؤ اور میرے لئے بھی آئس کریم لے آنا۔ مظہر یہ سُن کر خوشی خوشی آئس کریم لینے چلا گیا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*…شعبہ فیضانِ قراٰن ، المدینۃالعلمیہ ، کراچی
Comments