ایک مرتبہ نبیِّ کریم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے حضرت سیّدُنا ابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ سے اِسْتِفْسار فرمایا : تم وِتْر کی نماز کب پڑھتے ہو؟ عرض کی رات کے ابتدائی حصے میں ، پھر آقا صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے حضرت سیّدُنا عمر فاروق رضیَ اللہُ عنہ سے استفسار فرمایا : تم وِتْر کی نماز کب پڑھتے ہو؟ عرض کی : رات کے آخری حصے میں ، پیارے آقا صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے حضرت ابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ کے لئے ارشاد فرمایا : انہوں نے احتیاط کو اختیار کیا ، پھر حضرت عمر فاروق رضیَ اللہُ عنہ کیلئے فرمایا : انہوں نے طاقت کو اختیار کیا۔ ([i])
اے عاشقانِ نماز! حضرت سیّدُنا عمر فاروق رضیَ اللہُ عنہ جہاں اپنے نفس پر سختی کرتے ہوئے انفرادی عبادات بجالاتے تھے وہیں اجتماعی عبادت کی بھی ترغیب دلاتے تھے بلکہ عبادات کے معاملے میں لوگوں کی خامیاں اور کوتاہیاں دور کرتے اور اصلاح کرتے ہوئے بھی نظر آتے تھے۔ آئیے! چند واقعات پڑھتے ہیں :
پانی کا برتن سِرہانے : آپ رضیَ اللہُ عنہ صلوٰۃُ اللیل کا خوب اہتمام کرتے تھے جب عشاء کی نماز پڑھ لیتے تو گھر والوں کوحکم دیتے کہ میرے سِرہانے پانی سے بھرا ہوا برتن رکھ دیں ، پھر آرام کرتے اور رات میں اٹھ کر پانی سے ہاتھ منہ صاف کرتے اور ذِکرِ الٰہی میں مشغول ہوجاتے پھر سو جاتے یہاں تک کہ وہ گھڑی آجاتی جس میں نیند سے بیدار ہوکر آپ رضیَ اللہُ عنہ نماز پڑھا کرتے تھے۔ ([ii])
رات کا درمیانی حصہ : بعض روایتوں میں ہے : آپ رضیَ اللہُ عنہ کو رات کے درمیانی حصے میں نماز پڑھنا پسند تھا۔ ([iii])
نماز سے پہلے دُعا : فاروقِ اعظم رضیَ اللہُ عنہ جب رات میں (عبادت کیلئے) کھڑے ہوتے تو یوں دعا کرتے : اے اللہ ! تُو میری جگہ کو بھی دیکھ رہا ہے اور میری ضرورت کو بھی جانتا ہے تُو مجھے میری حاجت پوری کرکے لوٹانا کہ کامیاب اور نجات یافتہ ہوجاؤں اور دعائیں مقبول ہوجائیں کہ تو نے میری مغفرت کردی ہو اور مجھ پر رحم کردیا ہو ، اس کے بعد نماز شروع کرتے۔ ([iv])
گھر والوں کو جگاتے : رات میں جس قدر رَبّ کریم چاہتا آپ رضیَ اللہُ عنہ نماز پڑھتے رہتے حتّٰی کہ رات کے آخری حصےمیں اپنے گھر والوں کو نماز کے لئے جگاتے اور ان سے فرماتے : نماز ، پھر یہ آیت تلاوت کرتے : ( وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْهَاؕ-لَا نَسْــٴَـلُكَ رِزْقًاؕ-نَحْنُ نَرْزُقُكَؕ-وَ الْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰى(۱۳۲) ) ترجَمۂ کنزُ الایمان : اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دے اور خود اس پر ثابت رہ کچھ ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے ہم تجھے روزی دیں گے اور انجام کا بَھلا پرہیزگاری کے لئے۔ ([v]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسلَّم : “ جس نے وُضو کیا اور اچھی طرح ہر عُضْو کو دھویا پھر مسجدِ قُبا میں آیا اور نماز پڑھی تو اس کے لئے عمرے کا ثواب ہے “ اسی ثواب کو پانے کیلئے حضرت عمر فاروق رضیَ اللہُ عنہ ہر پیر اور جمعرات کو مسجدِ قُبا آیا کرتے اور وہاں نماز پڑھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے کہ اگر یہ مسجد دور دراز کنارے پر بھی ہوتی تو ضرور ہم اونٹوں پر اس کی طرف جاتے۔ ([vi])
ادائے مصطفےٰ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسلَّم : فاروقِ اعظم رضیَ اللہُ عنہ ذُوالْحُلَیفہ کے مقام پر دو رکعت پڑھ رہے تھے ، کسی نے وجہ پوچھی تو فرمایا : میں وہی کررہا ہوں جو رسولُ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کو کرتے ہوئے دیکھا۔([vii])
صَف میں خالی جگہ : فاروقِ اعظم رضیَ اللہُ عنہ جب دو صفوں کے درمیان سے گزرتے تو ٹھہر جاتے اگر درمیان میں کوئی جگہ خالی دیکھتے تو فرماتے : اسے بھردو۔ اگر خالی جگہ نظر نہ آتی تو آگے بڑھ جاتے اور تکبیر کہتےپھر پہلی رکعت میں کبھی سورۂ یُوسف کی تِلاوت کرتے توکبھی سورۂ نَحْل یا اس کے برابر بڑی سُورت کی یہاں تک کہ لوگ جماعت میں شامل ہوتے رہتے۔ ([viii])
رونے کی آواز : حضرت عبدُاللہ بن عمر رضیَ اللہُ عنہما فرماتے ہیں : میں نے فاروقِ اَعظم کے پیچھے نماز پڑھی ، میں نے تین صفوں کے پیچھے سے آپ کے رونے کی آوازسنی ہے۔ ([ix])
نمازیوں کی خبر گیری : ایک بار حضرت عمر فاروق رضیَ اللہُ عنہ نے صبح کی نماز میں حضرت سلیمان ابن ابی حَثْمَہ رضیَ اللہُ عنہ کو نہ پایا پھر آپ بازار تشریف لے گئے راستے میں ان کا گھر پڑتا تھا آپ رضیَ اللہُ عنہ نے ان کی والدہ سے پوچھا : میں نے سلیمان کو فجر میں نہیں پایا؟ وہ بولیں : وہ تمام رات نماز پڑھتے رہے پھر ان کی آنکھ لگ گئی ، فاروقِ اعظم رضیَ اللہُ عنہ نے فرمایا : میں فجر کی جماعت میں حاضر ہوجاؤں یہ مجھے تمام رات کھڑے رہنے سے پیارا ہے۔ ([x])
نماز کی اہمیت اُجاگر کرتے : آپ رضیَ اللہُ عنہ نے اپنے صوبوں کے گورنروں کے پاس فرمان بھیجا : تمہارے سب کاموں سے اہم میرے نزدیک نماز ہے ، جس نے نماز دُرست طریقے سے اور پابندی وقت کے ساتھ پڑھی اس نے اپنا دین محفوظ رکھا اور جس نے اُسے ضائع کیا وہ دیگر (عبادات) کو بدرجۂ اولیٰ ضائع کر ے گا۔ جوعشاء سے پہلے سوجائے خدا کرے اس کی آنکھیں نہ سوئیں ، جو سوجائے اس کی آنکھیں نہ سوئیں ، جو سوجائے اس کی آنکھیں نہ سوئیں۔ ([xi])
تراویح کی دھوم دھام فاروقِ اعظم کی یادگار : رمضان میں ایک رات حضرت عمر فاروق رضیَ اللہُ عنہ مسجد میں گئے دیکھا کہ تروایح کی نماز کچھ لوگ اکیلے پڑھ رہےہیں اور کچھ جماعت کے ساتھ پڑھ رہے ہیں ، آپ نے فرمایا : اگر میں ان لوگوں کو ایک قاری پر جمع کردیتا تو بہتر تھا پھر آپ نے حضرت اُبَیّ بن کَعب رضیَ اللہُ عنہ کو نماز پڑھانے پر مقرر کردیا ، دوسری رات یہ دیکھ کر کہ لوگ ایک ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں ارشاد فرمایا : یہ بڑی اچھی بدعت ہے۔ ([xii])
بَوقت شہادت نماز : 26ذو الحجہ 23 ہجری بروز بدھ فجر کی نماز میں آپ رضیَ اللہُ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور آپ شدید زخمی ہوگئے مسلسل خون بہنے کے سبب آپ رضیَ اللہُ عنہ پر غشی طاری ہوگئی ، جب ہوش آیا تو حضرت عبدُاللہ بن عمر رضیَ اللہُ عنہما کہتے ہیں : میں نے فاروقِ اعظم کا ہاتھ تھام لیا ، پھر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنے پیٹھ پیچھے بٹھا لیا ، وُضو کیا اور نمازِ فجر ادا کی۔ ایک روایت میں ہے : جب آپ رضیَ اللہُ عنہ کو ہوش آیا تو پوچھا : لوگوں نے نمازِ فجر ادا کرلی ہے؟ بتایاگیا : سب نے نماز ادا کرلی ہے ، ارشاد فرمایا : تارکِ نماز حقیقی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ پھر آپ رضیَ اللہُ عنہ نے وضو کیا اور نمازِ فجر ادا کی۔ آپ رضیَ اللہُ عنہ کی تدفین یکم محرم 24 ہجری بروز اتوار کو ہوئی۔([xiii])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*…مُدَرِّس مرکزی جامعۃالمدینہ ، عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments