ہم زمانۂ رِسالت سے جس قدر دور ہوتے جا رہے ہیں اسی قدر قراٰن وحدیث کی تعلیمات پر عمل سےبھی دوری ہوتی جارہی ہے۔ معاملہ تعلیم وتربیت کا ہو یا کہ گھریلو زندگی اور کاروباری معاملات کا ، اپنے دین سے ناواقفیت کی بِنا پر ہماری سوچ اور معیار بھی بدلتا جارہا ہے۔ کل تک جنہیں شریف ، عزّت دار سمجھا جاتا اور مختلف معاملات میں دوسروں پر انہیں ترجیح دی جاتی تھی انہی کو آج ترقی کی راہ میں رکاوٹ اور پُرانی سوچ کا مالک کہا جاتا ہے ، جبکہ وہ شخص جسے گزشتہ وقتوں میں اس کےغلط کاموں کی وجہ سےبدکردار ، بددیانت اور معاشرے کے سُدھار کا دشمن سمجھا جاتا تھا آج اسے شرافت اور عزت کا تاج پہنایا جاتا ہے ، صرف اسی پر ہی بَس نہیں بلکہ ایسوں کو اُن مبارک اَفراد پر بھی فوقیت اور ترجیح دی جاتی ہے جو قراٰن و حدیث پڑھنے پڑھانے والے اور دینِ اسلام کے سچے داعی ہوتے ہیں۔
یہ بے بنیاد معیارِ عزّت معاشرے کی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔ اس بے بنیاد معیارِ عزّت نے ہزاروں گناہوں کو ہماری نگاہوں میں بہت چھوٹا بلکہ بعض گناہوں کو تو اچھا کر دکھایا ہے۔ آج کے معاشرے کی حقیقی تصویر یہ ہے کہ جُوا ، شراب نوشی ، بدکاری اور مزید ایسے ہی ایک دو بڑے گناہوں کے سِوا کم ہی کسی گناہ کو گناہ سمجھا جاتا ہے۔
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اگر ہم غور کریں تو یہ فیصلہ کرنا کوئی مشکل نہیں کہ عزت و شرافت کے اس طرح کے بے ڈھنگے معیار سے معاشرتی اخلاقیات کا کس قدر نقصان ہورہا ہے اور آنے والی نسلوں کی تربیت کا نظام کتنا بگڑرہا ہے۔
یاد رکھئے! اسلامی نقطۂ نظر سے وہ باتیں اور کام جو شریعتِ اسلامیہ کے احکامات اور اخلاقی قواعد و ضوابط کے مطابق ہوں وہ اچھے اور تعریف کے لائق ہیں ، انہیں اپنانے والا مسلمان بھی اچھا اور قابلِ عزّت ہے ، جبکہ ہر وہ قول و فعل جو دینِ اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہو اس کے مرتکب کی ہرگز حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی اور حقیقت میں ایسے ہی لوگ حقیقی معیارِ عزّت سے گِرے ہوئے ہیں۔
اللہ پاک کےنزدیک زیادہ عزت والا وہی ہے جو زیادہ پرمتّقی ہے۔ جس طرح آدمی کے نیک ہونے کے مختلف دَرَجات ہیں اسی طرح انسان کے اَخلاقی و عملی اعتبار سے بگڑے ہوئے ہونے کےبھی مختلف گریڈز ہیں ، مثلاً (1)انتہا درجے کے بگڑئے ہوئے افراد جیسے اللہ پاک یا دینِ اسلام کا انکار کرنے والے اور اللہ کے حلال کردہ کو حرام اور حرام کردہ کو حلال ٹھہرانے والے (2)وہ لوگ جو ہوں تو مسلمان مگر فرائضِ دین جیسے نماز کو جان بوجھ کرچھوڑنے والے ہوں ، کیونکہ جو کسی فرضِ اعتقادی کو بلا عذرِ صحیح شَرْعی قَصْداًایک بار بھی چھوڑے فاسق و مرتکبِ کبیرہ و مستحقِ عذابِ نار ہے۔ (بہارِ شریعت ، 1 / 282) (3)وہ شخص جو شریعت کی واجب کردہ چیزوں میں سےکسی چیز کا تارِک (چھوڑنے والا) ہو (4)وہ شخص جو سنّتِ مؤکدہ کو تَرْک کرنے کی عادت بنالے۔
بسااوقات ان مذکورہ اقسام میں ذِکْر کئے گئے افراد کو ان کی دولت ، شہرت ، دینی یا دنیوی جاہ و منصب یا نظر آنے والے مختلف دنیوی مینرز وغیرہ کی بِنا پر سُدھرا ہوا سمجھا جاتا اور انہیں عزّت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر شریعت کی نظر میں یہ تمام افراد بگڑے ہوئے لوگوں کی لِسٹ میں داخل ہیں۔
شریعت کی نظر میں بگڑے ہوئے چند افراد : * فرض علوم حاصل نہ کرنے والے * فرض نماز ادا نہ کرنے والے * رَمَضانُ المبارک کے فرض روزے نہ رکھنے والے * زکٰوۃ فرض ہونے کے باوجود ادا نہ کرنے والے * صاحبِ استطاعت ہونے کے باوجود حج نہ کرنے والے * گانے باجے سننے اور فلمیں ڈرامے دیکھنے والے * گانوں باجوں اور فلموں ڈراموں کا کاروبار کرنے والے * بےپردہ اجنبی لڑکیوں کے ساتھ دوستیوں اور تعلقات کو معیوب نہ سمجھنے والے * کوایجوکیشن کی حوصلہ افزائی كرنے والے * داڑھی مُنڈانے یا ایک مٹھی سے گھٹانے والے ، مسلمانوں کی غیبتیں ، بُرائیاں اور ان پر الزام تراشیاں کرنے والے * کاروبار میں دھوکا دہی ، ملاوٹ اور جھوٹ سےکام لینے والے * سود اور رشوت لینے اور دینے والے * شادی بیاہ میں خود بھی ناچنے اور اپنی ماں بہنوں اور جوان بچیوں کو بھی اس کام میں شریک کرنے والے * والدین کی نافرمانی کرنے والے * یتیموں اور رشتہ داروں یا وارثوں کا حق دبانے والے * جھوٹی گواہی دینے والے * بلااجازتِ شرعی رشتہ داروں سے تعلقات توڑنے والے وغیرہ معاشرے کےبہت سے افراد ایسے ہیں جو اپنی مختلف باتوں اور کاموں کی وجہ سے دین ِ اسلام کے اصولوں کے مطابق بگڑے ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود وہ خود کو اور اپنی طرح کے دیگر لوگوں کو معاشرے کا سُدھرا ہوا ، شریف اور عزت دار فرد سمجھ رہے ہوتے ہیں۔
میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے کہ ہمارا معیارِ شرافت و عزّت وہی ہونا چاہئے جو شریعتِ مطہرہ نے ہمیں عطا کیا ہے اور اس کے لئے ہمیں شریعتِ اسلامیہ کے بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں اپنے ہر قول و فعل کا جائزہ لینا چاہئے ، اس کام میں آسانی کے لئے میرے شیخِ طریقت ، امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا عطاکردہ مدنی انعامات کا رِسالہ جسے “ نیک بننے کا نسخہ “ کہا جاتا ہے اس کا مطالعہ بہت مفید ہے ، اللہ کریم نے چاہا تو اس کو بغور پڑھنے سے ہمیں کافی حد تک اس بات کا اندازہ ہوجائے گا کہ زندگی کے مختلف شعبہ جات میں ہمارے بنائے ہوئے معیار اچھے ہیں یا بُرے؟ ہمارے اندر اچھی باتیں زیادہ پائی جاتی ہیں یا بُری؟ اسلام کی نظر میں ہم شریف ، عزّت دار اور سُدھرے ہوئے ہیں یا کچھ اور؟ اللہ کریم ہمیں حق کو قبول کرنے اور اسے اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Comments