دیکھ حُسین نے دین کی خاطر سارا گھر قربان کیا
اُمِّ میلاد عطاریہ
ماہنامہ محرم الحرام 1442
سِن 60 ہجری میں صحابیِ رسول ، کاتِبِ وحی حضرت سیّدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یزید تخت نشین ہوگیا اور اس نے اپنی بیعت لینے کے لئے سلطنت کےاطراف میں مکتوب روانہ کئے ، مدینۂ طیبہ کے عامل نے جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے یزید کی بیعت کرنے کا مطالبہ کیا تو آپ نے اس کے فِسق و ظلم کی بنا پر اس کونااہل قراردیا اور یہ جانتے ہوئے بھی بیعت سے انکارکردیا کہ یزید آپ کی جان کے درپے ہوجائے گا ، آپ کی دیانت اور تقویٰ نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی جان بچانے کی خاطر نااہل کے ہاتھ پر بیعت کرلیں اور مسلمانوں کی تباہی ، شرعی احکام کی خلاف ورزی اور اسلام کے نقصان کی پرواہ نہ کریں۔
دوسری طرف یزید یہ جانتا تھا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے ہوتے ہوئے اسے اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کا موقع میسّر نہیں آئے گا اس لئے اس نے زبردستی جنگ مسلَّط کرکے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو میدانِ کربلا میں شہید کردیا۔ ([i])
انجام کی پرواہ کئے بغیر امام حُسین رضی اللہ عنہ کا یزید کی بیعت سے انکار کردینا یقیناً دینِ اسلام کے لئے بہت بڑی قربانی تھی کیونکہ اگرآپ رضی اللہ عنہ یزید کی بیعت کرلیتے تو اسلام کا نظام دَرہَم بَرہَم ہوجاتا اور دینِ اسلام میں ایسا فساد برپا ہوجاتا جس کو دور کرنا بعد میں ناممکن ہوتا۔ یزید کی ہر بَدکِرداری کے جواز کے لئے آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت سَند ہوتی اور شریعتِ اسلامیہ کا نقشہ بگڑ جاتا لیکن آپ نے دینِ اسلام کی بَقا و سلامتی کے لئے اس فاسق کی بیعت کرنے کے بجائے ظلم و ستم سہنے کو ترجیح دی۔
پیاری اسلامی بہنو!جو بھی دینِ اسلام کی خدمت کے راستے پر چلتا ہے اس پر مصیبتوں اور پریشانیوں کے بادل سایَہ فِگن ہوتے ہیں ، کوئی ظلم و ستم کا نشانہ بنتا ہے تو کوئی لوگوں کے طعنوں کی زَد میں آجاتا ہے۔ ممکن ہے کہ نیکی کی دعوت عام کرنے کی مقدّس کوشش میں آپ کو بھی لوگوں کے طعنے سننے کو ملیں ، کوئی سپارہ پڑھانے والی باجی تو کوئی ملّانی جیسے طنزیہ جملے کَس کر آپ کا دل دُکھائےیا بے پردگی سے بچنے پر طعنے دے مگر آپ نے لوگوں کے طعنوں کی پرواہ کئے بغیر حَسَنَینِ کریمین کے نانا جان پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لائے ہوئے دین کی خدمت کرنی ہے۔ خدانخواستہ کبھی لوگوں کے نارَوا سلوک کا سامنا ہو تو میدانِ کربلا میں ڈھائے جانے والے ظلم ، حضرت شہربانو ، حضرت زینب ، حضرت سکینہ اور کربلا کے دیگر شُہَدا رضوان اللہ علیہم اَجْمعین کی بیویوں اور ماؤں کے غم کو یاد کیجئے کہ جب ان خواتین نے اپنے پیاروں کو شہید ہوتے دیکھا ہوگاتو ان پر کیا گزری ہوگی! جب آپ اس ظلم کا تصور کریں گی تویقیناً اس کے مقابلے میں اپنا درد بہت ہلکا محسوس ہوگا بلکہ بقولِ امیرِ اہلِ سنّت([ii]) کہ جب آپ اس منظر کو یاد کریں گی تو اپنی معمولی سی تکلیف کے احساس پر آپ کو خود ہی ہنسی آئے گی کہ کیا ہماری بھی کوئی تکلیف ہے!
لہٰذا صبر کا دامن تھامے اپنی مختصر سی زندگی کو شریعت و سنّت کے مطابق گزاریں ، دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ رہیں اور اسلامی بہنوں کو نیکی کی دعوت دیتی رہیں۔
Comments