کامل مسلمان ہونے کے لئےمحبتِ رَسول کا ہونا اِس قدر لازِم و ضروری ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی اُس وَقْت تک (کامِل) مؤمِن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اُس کے نزدیک اُس کے والِد ، اَوْلاد اور تَمام لوگوں سے زِیادہ مَحْبُوب نہ ہوجاؤں۔ ([i]) آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نسبت رکھنے والی ہر چیز (خواہ وہ لباس ہو ، جگہ ہو یا آپ کی آل و اولاد ہو ان سب) کا ادب و احترام اور دل کی گہرائیوں سے ان کی تعظیم و توقیر کرنا عشق و محبت کا تقاضا ہے۔ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ آپ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز عظیم ہوجاتی ہے مثلاً نسبتِ نکاح ملنے سے اُمّہاتُ المؤمنین اور ازواجِ مطہرات ، نسبتِ صحبت ملنے سے صحابیت اور نسبتِ اولاد ملنے سے سِیادَت کا شرف میسر آتا ہے۔ آپ کی اولاد جسے ہم ادب سے آلِ رسول اور ساداتِ کرام کہتے ہیں اسے بھی پیار اور احترام کی نِگاہ سے دیکھا جائے یہی مَحبّتِ رسول کا تقاضا ہے۔
يادرکھئے!محبتِ سادات کامل ایمان کی علامت ہے چنانچہ حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : کوئی بندہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اس کی جان سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں اور میری اَولاد اسے اپنی اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہوجائے اور میری ذات اس کی اپنی ذات سے زیادہ محبوب نہ ہوجائے اور میرے گھر والے اسے اپنے گھر والوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں۔ ([ii]) اپنی اولاد کو محبتِ سادات کی بچپن سے تربیت دینے کا تاکیدی حکم بھی ہمیں بارگاہ ِ مصطفےٰ سے ملا ہے ، حدیثِ پاک میں ہے : اپنی اولاد کی تین خَصلتوں پر تربیت کرو : (1)تمہارے نبی کی محبت (2)اہلِ بیتِ پاک کی محبت (3)تلاوتِ قراٰن۔ بیشک قراٰن کی تلاوت کرنے والا انبیا و اَصفِیا کے ساتھ اس روز عرشِ الٰہی کے سائے میں ہوگا جس دن عرشِ الٰہی کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔ ([iii])
اہلِ بیت و سادات کے فضائل پر مشتمل چند فرامینِ مصطفےٰ ملاحظہ کیجئے : (1)اللہ کی خاطِر مجھ سے محبت کرو اور میری خاطِر میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔ ([iv]) (2)اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ہمارے اہلِ بیت سے بُغض رکھنے والے کو اللہ پاک جہنم میں داخل کرے گا۔ ([v]) (3)میری شفاعت میری اُمّت کے اُسی شخص کے لئے ہے جو میرے گھرانے سے محبت رکھنے والا ہو۔ ([vi]) (4)قیامت کے دن بندہ اس وقت تک اپنے قدم نہ ہِلا سکے گا جب تک کہ چار باتوں سے متعلق سوالات نہ کرلیے جائیں : (1)عمر گزارنے کے متعلق (2)جسم گھلانے کے متعلق (3)مال خرچ کرنے اور حاصل کرنے کے متعلق (4)ہمارے اہلِ بیت سے محبت رکھنے کے متعلق۔ ([vii])
بزرگانِ دین ساداتِ کرام کی خدمت میں پیش پیش نظر آتے تھے چنانچہ ایک سیّد زادے جب حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کسی کام سے تشریف لائے تو اِس موقع پر آپ نے سیّد زادے سےعرض کی : اگر آپ کو کوئی کام ہو تو آپ مجھے طلب فرما لیا کریں یا مجھے خط لکھ کر بھیج دیا کیجئے۔ آپ
کو اپنے دروازے پر کھڑا دیکھ کر مجھے شرمندگی ہورہی ہے۔ ([viii])
حضرت علی خَوّاص رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ساداتِ کرام
کا ہم پر حق تو یہ ہے کہ ہم اپنی روحیں اُن پر قربان کر ڈالیں کیوں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مبارَک خون اور گوشت اُن میں سَرایت کئے ہوئے ہے ، وہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ٹکڑا ہیں اور تعظیم و توقیر میں جُزء کا وہی دَرَجہ ہے جو کُل کا ہے۔ جس طرح رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک زندگی میں جُزء کی حُرمت تھی وہی حکم اب بھی ہے۔ بعض اہلِ علم نے یہاں تک فرمایا ہے کہ سادات ِکرام اگرچہ نسب میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کتنے ہی دور ہوں اُن کا ہم پر حق ہے کہ اپنی خواہشوں پر اُن کی رضا کو مقدم کریں اور اُن کی بھرپور تعظیم کریں اور جب یہ حضرات زمین پر تشریف فرما ہوں تو ہم اُونچی نشست پر نہ بیٹھیں۔([ix])
ایک مرتبہ حاجت مند سیّد زادے کی یہ صَدا “ دلواؤ سیّد کو “ اعلیٰ حضرت کے کانوں میں پڑی تو آپ نے اُن کو بلوایا اور اُس وقت موجود تمام رقم آپ کی خدمت میں پیش کردی ، جب سیّد زادے نے اُس میں سے تھوڑی رقم لی تو اُسی وقت آپ نے یوں فرمایا : حُضور! یہ سب حاضر ہیں۔ سیّد زادے نے فرمایا : مجھے اتنا ہی کافی ہے۔ پھر جب وہ جانے لگے تو اعلیٰ حضرت بھی اُن کو رُخصت کرنے تشریف لے گئے ، رُخصت کرنے کے بعد خادم کو یہ تاکید کی : دیکھو! سیّد صاحب کو آئندہ سے آواز دینے ، صَدا لگانے کی ضرورت نہ پڑے۔ جس وقت سیّد صاحب پر نظر پڑے فوراً حاضر کرکے سیّد صاحب کو رخصت کردیا کرو۔ ([x])
حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ساداتِ کرام کی تعظیم و توقیر بجالانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ، ملاقات کے وقت اگر بتادیا جائے کہ یہ سیّد صاحب ہیں تو اُن کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں ، سیّد زادے کا ہاتھ چُوم لیا کرتے ہیں ، انہیں اپنے برابر میں بٹھاتے ہیں حتّٰی کہ ساداتِ کِرام کے بچّوں سے بے پناہ محبت اور شفقت سے پیش آتے ہیں۔
محبتِ رسول کا تقاضا ہے کہ ہم ساداتِ کِرام کی تعظیم کریں۔ جو ساداتِ کِرام کی تَوہین و گستاخی کرے ، اِن سے دُشمنی رکھے یا کسی بھی طریقے سے اِن کی بے ادبی کرے تو یقیناً ایسا شخص اپنے محبتِ رسول کے دعوے میں جُھوٹا ہے اور اپنے اِس عمل سے نہ صرف اِنہیں بلکہ اِن کے جَدِّ امجد ، حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی ناراض کرتا ہے اور تکلیف پہنچاتا ہے چُنانچہ امام عبدُالوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : سَیِّد شریف نے حضرت خَطَّاب رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں بَیان کیا کہ کاشِفُ الْبُحَیْرَہ نے ایک سَیِّد صاحِب کو مارا تو اُسے اسی رات خواب میں حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اِس حال میں زِیارت ہوئی کہ آپ اُس سے اِعْرَاض فرما رہے ہیں (یعنی رُخِ اَنْوَر پھیر رہے ہیں)۔ اُس نے عَرض کی : یارسولَ اللہ! میرا کیا گناہ ہے؟ فرمایا : تُو مجھے مارتا ہے ، حالانکہ میں قِیامت کے دِن تیرا شَفِیْع (یعنی شفاعت کرنے والا) ہوں۔ اُس نے عَرْض کی : یارسولَ اللہ! مجھے یاد نہیں کہ میں نے آپ کو مارا ہو۔ ارشاد فرمایا : کیا تُو نے میری اَوْلاد کو نہیں مارا؟ اُس نے عَرْض کی : ہاں۔ فرمایا : تیری ضَرْب (مار) میری ہی کَلائی پر لگی۔ پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی مُبارَک کَلائی نکال کر دِکھائی جس پر وَرم تھا جیسے کہ شہد کی مکّھی نے ڈنک مارا ہو۔ ہم اللہ پاک سے عافیت کا سُوال کرتے ہیں۔ ([xi])
اللہپاک ہمیں اور ہماری نسلوں کو تعظیمِ سادات کی برکات سے مالامال فرمائے اور خدمتِ سادات کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*…ذمہ دار شعبہ فیضانِ اولیاو علما ، المدینۃالعلمیہ کراچی
Comments