شیخِ طریقت ، امیرِ اَہلِ سنّت ، حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے ملازمت سے فارغ کردئیے جانے پر ایک اسلامی بھائی کی مکتوب کے ذریعے دِل جُوئی فرمائی :
مجھ سا کوئی غم زدہ نہ ہوگا تم سا نہیں غم گسار آقا
“ صبر اوّل صدمے پر ہوتا ہے ، بعد میں تو صبر آہی جاتا ہے۔ “ اللہ پاک آپ پر رَحْم فرمائے ، آپ کا امتِحان ہے ، صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیجئے۔ ایسے مواقع پر “ زبان کھولنا “ اپنے لئے بابِ ہلاکت وَا کرنے (یعنی کھولنے) کے مُترادِف ہوتا ہے اور گناہوں سے بچنا قریب قریب ناممکن۔ (اگر آپ کے اِجارے کا وقت ہی پورا ہوگیا تھا اور نیا اِجارہ نہ کیا گیا تب تو کسی پر الزام ہی نہیں)
ہے صبر تو خزانۂ فِردوس بھائیو!
عاشق کے لب پہ شکوہ کبھی بھی نہ آسکے
میرے لئے بے حساب مغفِرت کی دُعا کرتے رہئے۔
دعوتِ اسلامی کے مدنی کاموں میں خود کو مصروف رکھئے۔
خوفِ آخِرت کا تقاضا یہ ہے کہ ملازمت سے فراغت کے موقع پر عبرت حاصل کرتے ہوئے دنیا سے رُخصت کو یاد کرے۔
آہ! بے باکیاں کہیں قِیامت میں پھنسا کر نہ رکھ دیں ۔
گزر جائیں گے ہنستے کھیلتے سارے مراحِل سے
لگا دیں گے وہ پار اپنا سفینہ آکے ساحِل سے
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہُ علٰی محمَّد
10ذوالقعدۃ الحرام 1434ھ
Comments