رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی2 اِمتیازی شانیں
(1)آواز بلند کرنے کی مُمانَعت: سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں آواز بلند کرنے کو حرام قرار دیا گیا۔ [1]
مقدّس قراٰن میں اللہ پاک کا فرمان ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حُضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اَعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبرنہ ہو۔ [2] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
صدّیق و فاروق رَضِیَ اللہ عَنْہُما کا ادب اللہ پاک کی طرف سے یہ حُکم آنے کے بعد شَیخَیْن کَرِیمَیْن یعنی حضرت سیِّدُنا ابوبکْرصدّیق اور حضرت سیِّدُناعمر فاروق رضی اللہ عنہما کا ادب مُلاحَظہ فرمائیے: حضرت سیِّدُنا ابو بکْر صدّیق رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ ‘‘ تو میں نے بارگاہِ رِسالت میں عَرْض کی: یارسولَ اللہ! اللہ کی قسم! آئندہ میں آپ سے سرگوشی کے انداز میں بات کیا کروں گا۔[3] یہ آیت نازل ہونے کے بعد حضرتسیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا حال یہ تھا کہ آپ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں بہت آہستہ آواز سے بات کرتے حتّٰی کہ( بعض اوقات) حُضورِ اَکْرَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بات سمجھنے کے لئے دوبارہ پوچھنا پڑتا ( کہ کیا کہتے ہو)۔ [4]
آسکتا
ہے کب ہم سے گَنواروں
کو ادب وہ
جیسا کہ ادب کرتے
تھے یارانِ
محمد[5]
روضۂ انور کے پاس آواز بلند کرنا پیارے اسلامی بھائیو! سیِّدعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وِصالِ ظاہری کے بعد مزارِ پُراَنوار کے پاس آواز بلند نہ کی جائے۔حضرت سیِّدُنا امام مالِک رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے:اِنَّ حُرْمَتَهٗ مَيْتًا كَحُرْمَتِهٖ حَيَّا یعنی تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عزّت وحُرمت آج بھی اُسی طرح ہے جس طرح حیاتِ ظاہِری میں تھی۔[6]
اَمیرُ المومنین(حضرت سیِّدُنا) عمر رضی اللہ عنہ نے رَوضۂ اَنور کے پاس کسی کو اونچی آواز سے بولتے دیکھا، فرمایا :کیا اپنی آواز نبی کی آواز پر بلند کرتاہے اور یہی آیت تلاوت کی۔)[7]( صدرُ الشریعہ مفتی اَمجد علی اَعَظَمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:(سنہری جالیوں کے سامنے) مُعتدِل (یعنی درمیانی) آواز سے (سلام پیش کرو)، نہ بلند و سخت کہ اُن کے حُضور آواز بلند کرنے سے عمل اَ کارت (یعنی برباد)ہو جاتے ہیں۔[8]
بارگاہِ ناز میں آہستہ بول ہو نہ سب کچھ رائگاں[9] آہستہ چل
(2)دُرود و سلام پڑھنا لازم کیا گیا:اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دُرود و سلام پڑھنا ہم پر لازم ہے۔ [10]
اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)ترجمۂ کنزُ العِرفان: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر دُرود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو!ان پر دُرود اور خوب سلام بھیجو۔[11] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
انہیں کس کے دُرود کی پروا بھیجے جب ان کا کِردِگار[12] دُرود[13]
دُرُود شریف پڑھنا کب فرض،کب واجب؟اے عاشقانِ رسول!زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ سرکارِ مدینہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دُرود شریف پڑھنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔
الگ الگ مجلسوں(Sittings)میں جتنی بار نامِ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیا یا سُنا جائے ہر بار دُرود شریف پڑھنا واجب ہے۔ ایک ہی مجلس(Sitting) میں چند مرتبہ نامِ مبارَک لیایا سُنا جائے تو بعض عُلَما کے نزدیک ہر بار دُرود شریف پڑھنا واجب ہے جبکہ بعض عُلَما کے نزدیک ایک مرتبہ واجب اور ہر مرتبہ دُرود شریف پڑھنا مُسْتَحب (یعنی ثواب کا کام)ہے۔[14]
دُرود و سلام پڑھنے کے فضائل و برَکات اور نہ پڑھنے کے نقصانات جاننے کے لئے امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ’’فیضانِ دُرود و سلام ‘‘مُلاحَظہ فرمائیے۔اللہ پاک ہمیں کثرت کے ساتھ دُرود و سلام پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
بیٹھتے اٹھتے جاگتے سوتے ہو الٰہی مرا شِعار[15] دُرود[16]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭…کاشف شہزاد عطاری مدنی
٭…ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی
Comments