تقویٰ و پرہیزگاری کیسے حاصل ہو؟
تقویٰ و پرہیزگاری ایسی دولت ہے جس کے ذریعہ انسان اللہ کا قرب پا لیتا ہے۔ حرام کاموں کے اِرتکاب سے گُریز کرتا ہے اور جائز کاموں کی طرف نفس کو لگاتا ہے۔مَنْہِیَّات (شریعت کے منع کردہ کام) سے بچ کرنیکی و بھلائی کے کاموں کی طرف تگ و دو (کوشش) کرتا ہے۔ ایسی عظیم دولت کو کیسے حاصل کیا جائے؟ آئیے!قراٰن و حدیث کے مہکتے مدنی پھولوں سے راہنمائی لیتے ہیں:(1)عدل و انصاف سے: اللہ پاک ارشاد فرماتاہے:( اِعْدِلُوْا- هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى٘-) تَرجَمۂ کنز الایمان: انصاف کرو وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے۔ (پ6 ،المائدۃ :8 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
عدل و انصاف کا تعلُّق انسانی حقوق سے ہے اور انسانی حقوق کے تحفُّظ کا تقویٰ میں سب سے بڑا دخل ہے، اسی لیے عدل کو ” هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى٘ “فرمایا ہے۔(تفسیر ِ مظہری ،تحت الآیۃ: 8،ج 4،ص315)(2)پیارےآقاصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ کا ادب کرنے سے: خالقِ کائنات کا ارشادِ عظیم ہے: (اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-) تَرجَمۂ کنز الایمان: بے شک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسولُ اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ (کھول دیا ،کشادہ کردیا،فی القاموس) لیا ہے۔ (26،الحجرات:3) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
علما فرماتے ہیں :جس طرح حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حیاتِ طیّبہ میں آپ کے سامنے بلند آواز سے بولنا مکروہ تھا، اسی طرح قبر مبارک کے پاس بھی مکروہ ہے۔( تفسیر ابن کثیر ،تحت الآیۃ:3،ج4،ص615) (3)نیک اور سچوں کی صحبت سے : اللہ کریم نے پہلے تقویٰ اختیار کرنے کا حکم فرمایا، پھر طریقہ بتایا کہ سچوں کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۱۹))تَرجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو۔ (پ11، التوبۃ:119) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) (4)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کامل اتباع سے:اللہ پاک فرماتا ہے :
(وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳))تَرجَمۂ کنز الایمان:اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں۔ (پ24، الزمر:33) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
سچ لے کر تشریف لانے سے مراد حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں اورتصدیق(پیروی )کرنے والےتمام مؤمنین مراد ہیں۔(تفسیرِ کبیر ،تحت الآیۃ:33،ج9،ص452)(5)روزے رکھنے سے:اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں روزے کی فرضیت کے احکام صادر فرما کر اس کا مقصود تقویٰ قرار دیا کیونکہ روزے اورتقوی کا چولی دامن کا ساتھ ہے،اورروزہ متقین کا شِعار ہے۔ قراٰن مجید میں ارشاد ہوا:( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)) تَرجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے ۔ ( پ2،البقرۃ:183) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
(6)رضائے الہی کی خاطر عبادت کرنے سے : قراٰن کریم میں ارشاد ہوتاہے:( یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۲۱)) تَرجَمۂ کنز الایمان: اے لوگو ! اپنے رب کو پوجو(عبادت کرو)جس نے تمہیں اور تم سے اگلوں کو پیدا کیایہ امید کرتے ہوئے کہ تمہیں پرہیزگاری ملے ۔(پ1،البقرۃ:21) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
(7)تقویٰ کی دعا مانگنےسے:حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دعا فرماتے تھے :اے اللہ! میں تجھ سےتیری پناہ میں آتا ہوں،عاجز ہو جانے، سستی، بزدلی، بخل، سخت بڑھاپے اور عذابِ قبر سے ۔ اے اللہ! میرے دل کو تقویٰ دے، اس کو پاکیزہ کر دے ۔(صحیح مسلم،ج 2 ،ص 315،حدیث:6906)
محمد فیضان چشتی عطاری
درجہ :خامسہ، جامعۃ المدینہ پاکپتن شریف
Comments