فرمانِ باری تعالیٰ ہے:) وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ)ترجمہ:اور نَماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرو۔(پ1، البقرۃ:43) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اس آیت میں دین کی بڑی علامت ”نماز“ کے بعد زکوٰۃ ہی کا ذکر کیا اور حدیث میں زکوٰۃ کو اسلام کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ ہر صاحبِ نصاب پر زکوٰۃ فرض اور نہ دینا حرام و گناہِ کبیرہ ہے اور بلا اجازتِ شرعی ادائیگی میں تاخیر بھی گناہ ہے۔
زکوٰۃ کی حکمتیں
زکوٰۃ کی پہلی حکمت” تقاضَۂ توحید کی ادائیگی“:جب بندہ کلمہ پڑھتا ہے تو توحید یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے تنہا معبود ہونے کی گواہی دیتا ہے اور توحید کا تقاضا ہے کہ مُوَحِّد (یعنی توحید کے قائل) کے لئے اس یکتا ذات کے سوا کوئی محبوب نہ رہے کیونکہ محبت شرکت قبول نہیں کرتی یعنی یہ نہیں کہ کسی کے برابر درجے کے دو محبوب ہوں بلکہ کامل محبوب ایک ہی ہوتا ہے۔ کامل محبت کا امتحان دوسری محبتوں سے مقابلہ کرنے سے ہوتا ہے کہ کیا بندہ خدا کی محبت پر اپنی محبوب چیز قربان کرنے کا جذبہ رکھتا ہے یا نہیں؟ چونکہ بندوں کے نزدیک مال بھی محبوب بلکہ بہت زیادہ محبوب چیز ہے کہ اس کی محبت میں لوگ دوستوں، رشتے داروں تک کو چھوڑ دیتے ہیں اور اسی کی وجہ سے دنیا سے محبت کرتے اور موت سے نفرت کرتے ہیں۔ لہٰذا خدا سے دعوئ محبت کی سچائی کی تصدیق کے لئے اِسی محبوب مال کو اُس محبوبِ حقیقی کے نام پر قربان کرنے کا حکم دیا گیا جیسے جہاد میں اپنی پیاری جان قربان کرنے سے امتحان لیا جاتا ہے۔ مال کے حوالے سے بعض کاملین نے فرمایا کہ ”عوام پر تو شریعت کے حکم سے اڑھائی فیصدزکوٰۃ فرض ہے لیکن ہم پرتمام مال خرچ کرناواجب ہے۔(احیاء العلوم،ج 1،ص288)
ایسے ہی جذبہ محبت سے سیِّدُنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نےغزوۂ تبوک میں اپنا تمام مال اورسیِّدُناعمرفاروقرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنا آدھا مال پیش کر دیا۔
زکوٰۃ کی دوسری حکمت”بخل سے نجات“:بخل یعنی کنجوسی ہلاک کر دینے والی خصلت ہے۔ نبیِّ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں: (1)ایسا بخل جس کی اطاعت ہو (2)ایسی خواہش جس کی اتباع کی جائے (3)انسان کا اپنے آپ کو اچھا جاننا۔(شعب الایمان،ج 1،ص471، حدیث: 745)
بخل کی خصلت ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان مال خرچ کرنے کا عادی ہوجائے کیونکہ کسی چیز کی محبت اسی صورت میں ختم ہوسکتی ہے کہ انسان اس کے چھوڑنے پر نفس کو مجبور کرے یہاں تک کہ اس کی عادت بن جائے۔ زکوٰۃ کا معنیٰ ”پاک کرنا“ ہے۔ یہ معنیٰ یہاں بہت خوب صورتی سے پایا جاتا ہے کہ زکوٰۃ صاحبِ مال کو ہلاکت خیز بخل کی برائی سے پاک کردیتی ہے حتی کہ اتنی پاکیزگی حاصل ہوجاتی ہے کہ کاملین و صالحین کا دل زیادہ خرچ کرنے سے زیادہ خوش ہوتا ہے جیسے سیِّدالکاملین، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے عمل مبارک سے ظاہر ہے کہ جب دوسروں کو عطا فرماتے تو چہرہ مبارک خوشی سے جگمگا اٹھتا۔ ؎
آتا ہے فقیروں پہ انہیں پیار کچھ ایسا
خود بھیک دیں اور خود کہیں منگتا کا بھلا ہو
زکوٰۃ کی تیسری حکمت ”نعمت کا شکر ادا کرنا“: چونکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے بندے کو مال دے کر اُس پر انعام فرمایا ہے لہٰذا اُس مال کو اُس کے حکم پر اُس کی رضا کے لئے اُس کی راہ میں خرچ کرنا نعمتِ مال کا شکر ہے۔
زکوٰۃ دینے والے کے لئے چند آداب
(1)زکوٰۃ کی اوپر بیان کردہ حکمتوں کو اپنے ذہن میں رکھے اور نفس کا محاسبہ کرے مثلاً کیا میں حکمِ خدا پر راضی خوشی مال دیتا ہوں؟ کیا راہِ خدا میں مال خرچ کرنا میرے نفس پر آسان ہے کہ یہ بخل سے نجات کی علامت ہے؟ کیا میرے زکوٰۃ دینے نے اِس مُہلِک مرض بخل سے مجھے نجات دی؟ کیا ٖمیرے زکوٰۃ دینے میں پروردگار کی نعمت پر شکر کا جذبہ موجود ہے؟
(2)سال گزرنے یعنی زکوٰۃ فرض ہونے سے پہلے ہی حکمِ الٰہی کی طرف اپنی رغبت سے زکوٰۃ ادا کر دے تاکہ فقرا کے دلوں میں جلد خوشی داخل ہو نیز تاخیر کی وجہ سے بعد میں دینے میں کوئی رکاوٹ نہ پیش آ جائے۔
(3)دل میں ریاکاری یا کسی دوسرے باطنی مرض کا اندیشہ پائے تو پوشیدہ طور پر زکوٰۃ دے۔
(4)اگر علانیہ صدقہ دینے سے لوگوں کو ترغیب ملے گی تو ظاہری طور پر صدقہ دے اور اپنے باطن کو ریاکاری سے بچائے۔
(5)احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر اپنے صدقہ و زکوٰۃ برباد نہ کرے۔ احسان جتانے سے مراد یہ ہے کہ صدقہ دے کر اس کا بِلامقصد تذکرہ کرے اور ایذا دینے سے مراد یہ ہے کہ دینے کے بعد غربت کا طعنہ دے یا کوئی دباؤ ڈالے۔
(6)اپنے دینے کو چھوٹا سمجھے کیونکہ احکم الحاکمین، مالک الملک کی بارگاہ میں بڑے سے بڑا نذرانہ بھی کم ہی ہے نیز اگر اپنے دئیے کو بڑا سمجھے گا تو خود پسندی کا شکار ہوگا۔
(7)اپنے مال میں سے عمدہ، پسندیدہ اور حلال پاک و صاف مال دے کیونکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پاک ہے اور پاک مال کو ہی پسند فرماتا ہے۔ نہ تو حرام دے کہ وہ بالکل مردود بلکہ سببِ عذاب ہے اور نہ ہی ردی و ناکارہ قسم کی چیز صدقے میں دے کہ آدابِ صدقہ کے منافی ہے۔
(8)اپنے صدقہ کے لئے ایسے لوگوں کو تلاش کرے جن کے ذریعے صدقہ کو پاکیزگی حاصل ہوجائے جیسے پرہیزگار لوگ یا علما یا سچے محبانِ خدا یعنی ہر نعمت کو خدا کا انعام سمجھنے والے لوگ۔ یونہی سفید پوش کہ اپنی ضرورت چھپاتا ہو یا جو مستحق بال بچوں والا ہو یا کسی مرض یا کسی اور وجہ سے کمانے سے رکا ہوا ہو یا اپنا قریبی رشتہ دار ہو تو یہ صدقہ بھی ہو گا اور صلۂ رحمی بھی اور صلہ رحمی میں بے شمار ثواب ہے۔ دین داروں کو دینے میں بھی دوگنا ثواب ہے کہ صدقے کا بھی ثواب ہے اور خدمتِ دین میں سہولت فراہم کرنے کا بھی۔
اِن آداب کے ساتھ راہِ خدا میں مال خرچ کیا جائے تو اُس کی برکتیں اور رحمتیں بہت زیادہ نصیب ہوتی ہیں۔
٭…مفتی محمد قاسم عطاری
٭…دارالافتاء اہل سنت عالمی مرکز فیضان مدینہ ،کراچی
Comments