تین سیب چار کیسے ہوئے؟ ٹیچر نے ایک بچّے سے بڑی نرمی سے پوچھا:مُنّے! اگر میں تمہیں ایک سیب (Apple) دوں، پھر ایک اور سیب دوں اور پھر ایک سیب اور دوں تو تمہارے پاس ٹوٹل کتنے سیب ہوجائیں گے؟ بچّے نے اپنی انگلیوں پر گِن کر جواب دیا: چار۔ اتنی وضاحت کے ساتھ پوچھے گئے سُوال کا غلط جواب سُن کر ٹیچر کا مُوڈ آف ہوگیا لیکن اس نے خود پر کنٹرول کرتے ہوئے کہا: بیٹا! میری بات غور سے سُنو اور شفقت کے ساتھ اپنا سوال دُہرا دیا (Repeat کیا)۔ بچّہ ٹیچر کی ناگواری دیکھ چکا تھا، اس لئے اس نے بڑی توجّہ کے ساتھ سیبوں کی تعداد کو گِنا اور پورے یقین (Certainty) کے ساتھ کہا: ٹیچر! میرے پاس چار سیب ہوجائیں گے۔ یہ سُن کر ٹیچر سوچ میں پڑ گئی کہ یا تو وہ ناکام ٹیچر ہے جو بچّے کو اپنا سوال نہیں سمجھا سکی یا پھر بچّہ ذہنی طور پر بہت زیادہ کمزور (Weak)ہے! بہرحال اس نے اپنا سُوال تبدیل کیا اور بچّے سے پوچھا کہ یہ بتاؤ اگر میں آپ کو ایک کیلا (Banana) دوں، پھر ایک کیلا اور دوں، پھر ایک اور کیلا دوں تو آپ کے پاس کتنے کیلے ہوجائیں گے؟ بچّے نے ٹیچر کی ناراضی سے بچنے کے لئے دو مرتبہ انگلیوں پر کاؤنٹنگ کی اور بڑے جوش سے کہا: تین۔ ٹیچر کو اطمینان ہوا کہ میری محنت بے کار نہیں گئی بچّہ اب دُرُست جواب دینے لگا ہے۔ چنانچہ اس نے سیبوں والا سُوال دہرا دیا تو بچّے نے جو خوف سے باہَر آچکا تھا، جواب دیا: ٹیچر! چار سیب۔ اب کی بار ٹیچر نے تھوڑا سخت لہجے میں کہا: مجھے یہ بتاؤ کہ یہ سیب چار کس طرح بن جاتے ہیں؟ بچّے نے سہم کر جواب دیا: ٹیچر! آج صبح میری امّی نے مجھے ایک سیب دیا تھا جو میرے بیگ میں رکھا ہے، اب اگر آپ مجھے تین سیب دیں گی تو سب ملا کر میرے پاس ٹوٹل چار سیب ہوجائیں گے۔
ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین! اِس اسٹوری میں ہمارے لئے یہ سبق ہے کہ ہم کسی کو رُوٹین سے ہٹ کر کوئی کام کرتا دیکھیں تو اس کے بارے میں فوراً منفی رائے (Negative Opinion) قائم نہ کریں بلکہ غور کریں کہ وہ ایسا کیوں کررہا ہے! بلکہ اسی سے پوچھ لیں گے تو ہم غلط فہمی کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں جیسا کہ مذکورہ اسٹوری میں ٹیچر نے کیا کہ بچّے سے تین سیبوں کے چار ہونے کی وجہ پوچھی تو معاملہ واضح ہوگیا۔
مجھے بڑی شرمندگی ہوئی: کراچی کے ایک عالمِ دین کا کہنا ہے کہ میں جامعہ کی طرف آرہا تھا کہ راستے میں ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے رُکا تو کسی نے میری کار کے دروازے کے قریب آکر کچھ کہا، اس شخص کے لباس وغیرہ کی وجہ سے میں نے سمجھا کہ بھیک مانگ رہا ہے کیونکہ اس علاقے میں کئی بار میرا پیشہ وَر بھکاریوں (Professional Beggars) سے واسطہ پڑ چکا تھا چنانچہ میں نے اس کی بات غور سے سُنے بغیر ”مُعاف کرو“ کا اشارہ کردیا، اس نے دوبارہ مجھ سے کچھ بات کرنا چاہی تو میں نے ذرا قریب ہوکر غور سے اس کی بات سُنی، وہ بڑی عاجزی سے کہنے لگا: میں نے آپ سے بھیک نہیں مانگی بلکہ میں محنت مزدوری کرتا ہوں میں نے تو آپ سے مزارِ قائد کی طرف جانے والا راستہ پوچھا تھا۔ یہ سُن کر مجھے بہت زیادہ شرمندگی ہوئی کہ میں نے اس کی بات سُنے بغیر اُسے بھکاری قرار دے دیا۔ میں نے فوراً اس سے مُعافی مانگی اور اُسے راستہ سمجھا دیا۔ اس بات کو کئی سال گزر گئے لیکن جب بھی مجھے یہ واقعہ یاد آتا ہے تو شرمسار ہوجاتا ہوں۔
قارئین! یاد کیجئے! ہم بھی زندگی میں کئی بار کسی کے بارے میں غلط فہمی (Misconception) کا شکار ہوگئے ہوں گے جس کا شاید ہمیں نقصان بھی اُٹھانا پڑا ہو، پھر اصل بات پتا چلنے پر ہمیں احساس ہوا ہو کہ ہم غلطی پر تھے تو کیا ہی اچّھا ہو کہ ہم کسی کے بارے میں اپنی رائے فائنل کرنے سے پہلے خوب غور کرنے کی عادت بنالیں۔ جتنے احتمالات ہم اپنی غلطی کوJustifyکرنے کے لئے قائم کرتے ہیں اگر اس سے آدھے احتمالات بھی ہم دوسروں کی غلطی کو Justify کرنے لئے قائم کریں تو بہت ساری غلط فہمیوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور تعلقات بگڑنے سے بچ سکتے ہیں مثلاً*طالبِ علم سبق پڑھنے میں دلچسپی نہیں لے رہا تو اسے نالائق اور سُست قرار دینے کے بجائے ٹیچر کو غور کرنا چاہئے کہ ہوسکتا ہے میں سبق ٹھیک سے نہیں سمجھا رہا یاممکن ہے اس طالبِ علم کو گھریلو ٹینشن ہو یا اس کی طبیعت خراب ہو! *ساس نے بہو کو کوئی کام کہا لیکن اس نے نہیں کیا تو اُسے بدتمیز اور بے ادب قرار دینے کے بجائے ساس کو سوچنا چاہئے کہ ہوسکتا ہے کہ بہو اس کی بات نہ سُن پائی ہو یا مصروفیت میں بھول گئی ہو! *بوڑھے باپ نے بیٹے کو دفتر سے واپسی پر کوئی چیز لانے کی فرمائش کی لیکن بیٹا شام کو گھر آیا تو وہ چیز اس کے ہاتھ میں نہ تھی تو اسے احسان فراموش اور نِکمّا قرار دینے کے بجائے بوڑھے باپ کویہ سوچنا چاہئے کہ وہ بُھول گیا ہوگا یا وہ چیز اسے بازار سے نہیں ملی ہوگی یا اُس کے پاس وہ چیز خریدنے کے لئے آج پیسے نہیں ہوں گے۔ اس طریقے پر عمل کرکے ہم بہت سی غلط فہمیوں سے بچ سکتے ہیں۔ یاد رکھئے! بعض اوقات چھوٹی سی غلط فہمی میاں بیوی میں طلاق کروا دیتی ہے، ساس بہو میں لڑائیاں کروا دیتی ہے، بوڑھے والدین کو جوان اولاد کے خلاف کردیتی ہے، بہن کو بہن سے اور بھائی کو بھائی سےلڑوا دیتی ہے، خاندانی جھگڑے کروا دیتی ہے، دوستوں کی دوستی تُڑوا دیتی ہے،انسان کو انسان کے ہاتھوں قتل کروا دیتی ہے، اُستاذ کو شاگرد سے، سیٹھ کو ملازم، مرید کو پیر سے دُور کردیتی ہے۔ غلط فہمیوں کی وجہ سے مضبوط اِدارے اور بڑی بڑی تنظیمیں تک کمزور ہوجاتی ہیں۔
آخر میں ایک سبق آموز تمثیل (Story) پڑھئے: بہو اپنے سُسر کے کمرے کے قریب سے گزری تو اس کے کانوں میں ساس کی آواز پڑی کہ اب مجھ سے اس لڑکی کے نخرے برداشت نہیں ہوتے،یہ سُن کر وہ چونک گئی اور وہیں رُک گئی، اس کی ساس اپنے شوہر سے کہہ رہی تھی، جب دیکھو اس لڑکی نے نئی ٹینشن کھڑی کی ہوتی ہے، سمجھانے پر بھی نہیں سمجھتی، نہ ساس کو کچھ سمجھتی ہے نہ سُسر کی عزت کرتی ہے اور شوہر کو تو اپنا نوکرسمجھتی ہے، شام کو بیٹا گھر پر آتا ہے تو اس سے فائنل بات کرتی ہوں۔ یہ سُن کر بہو کے تن بدن میں تو گویا آگ لگ گئی کہ میں نے ان کے سامنے کون سے نخرے کئے ہیں! کب گھر میں ٹینشن کھڑی کی ہے! ساس سُسر کی خدمت سے کب انکار کیا ہے! شوہر کی عزت اور وقار میں کب کمی کی ہے؟ پھر بھی ان لوگوں کے میرے بارے میں اتنے بُرے تأثرات ہیں کہ اب مجھے گھر سے نکالنے کی سوچ رہے ہیں، اس سے پہلے کہ یہ شام کو میرے شوہر سے بات کریں اور مجھے دھکے دے کر گھر سے نکالیں میں خود ہی اپنے میکے چلی جاتی ہوں۔ یہ سوچنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آکر خاموشی سے اپنے کپڑے وغیرہ سوٹ کیس میں رکھنے لگی، ابھی پیکنگ سے فارغ ہوئی ہی تھی کہ ساس نے آواز دے کر بُلا لیا اور اپنے پاس بِٹھا کر کہنے لگی: بہو! تمہاری نند (یعنی میری بیٹی) کی اپنے سُسرال والوں سے نہیں بنتی، میں اپنی معلومات اور تجربے کی بنیاد پر سمجھتی ہوں کہ قصور میری بیٹی کا ہے، ہم نے اسے بہت سمجھایا ہے، آج شام کو بیٹا آتا ہے تو اس سے کہوں گی کہ کچھ دنوں کے لئے اُسے یہاں لے آئے، میری تم سے درخواست ہے کہ تم اس کی ہم عمر بھی ہو اور ہمارے گھر کی پیاری اور مثالی بہو بھی ہو، اگر تم اسے سمجھاؤ گی کہ بہو کو گھر میں کس طرح رہنا چاہئے تو مجھے امید ہے وہ خود کو بہتر کرلے گی۔ یہ سُن کر بہو نے ہاں میں سر ہلایا اور دل ہی دل میں شرمندہ ہونے لگی کہ میری ساس میرے بارے میں کیسے اچھے جذبات رکھتی ہے لیکن افسوس! جو باتیں انہوں نے اپنی سگی بیٹی کے لئے کی تھیں انہیں میں نے غلط فہمی کی وجہ سے اپنے اوپر لے لیا، پھر اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ پیکنگ کی بات کمرے تک ہی رہی ورنہ بات بڑھ سکتی تھی اورجھگڑا ہوسکتا تھا۔
٭…محمد آصف عطاری مدنی
٭…چیف ایڈیٹر ،ماہنامہ فیضان مدینہ ،کراچی
Comments