سلام بھیّا! کیسے مزاج ہیں، دیکھو تو کتنا سہانا موسم ہے،آؤ کھیلتے ہیں!
بھاگ جاؤ یہاں سے، میرے پاس تم جیسے چھوٹے بچوں کے لئے کوئی وقت نہیں۔ شیرُوبکرےنے ٹِنکو لومڑ کو جھاڑتے ہوئے کہا۔
شیرُو سے ڈانٹ کھانے کے بعد ٹِنکو سرجُھکائے جھیل(Lake) کے کِنارے کِنارے جا رہا تھا کہ اسے دوسری طرف بجلی بھیڑیا (Wolf)دکھائی دیا جو اپنے بچوں کے ساتھ مزے سے نہارہا تھا۔
بجلی!بجلی!! میں بھی آجاؤں، ٹِنکو نے اجازت لینے کے لئے پکارا۔کیا تم نے مجھے آواز دی ہے؟ بجلی غصّے سے بولا۔
ٹنکو نے فوراً جواب دیا: ہاں ہاں! میں نے تمہیں ہی آواز دی تھی۔
تم جیسے کمزور کا ہم جیسے طاقتور کے ساتھ کیا جوڑ!جاؤ جاؤ،کسی اپنے جیسےکمزورکے ساتھ جا کر کھیلو۔ یہ کہہ کر بجلی بھیڑیا دوبارہ اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنے لگ گیا۔
بجلی اور شیرُو کی باتوں سے بے چارہ ٹنکو بہت افسُردہ ہوا، تبھی اس کے دِماغ میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے شیرو بکرے اور بجلی بھیڑئے دونوں کو سبق سکھانے کی ٹھان لی۔
بجلی! تم سمجھتے ہو کہ میں کمزور اور چھوٹا ہوں؟ اگر میں تم سے ’’رسّے والے کھیل (Rope Pulling)‘‘ میں جیت جاؤں تو؟؟ٹنکو نے بجلی کو مُقابلہ کی آفر دیتے ہوئے کہا۔
اچھا مذاق تھا، بجلی نے منہ پھیرتے ہوئے جواب دیا۔
میں مذاق نہیں کر رہا، مُقابلہ کر کے دیکھ لویا پھرتم ہارنے سے ڈرتے ہو؟ ٹنکو نےکہا۔
میں اور تم سے ڈروں؟ ٹھیک ہے تمہیں اتنا ہی ہارنے کا شوق ہے تو آجانا ،میں یہیں ملوں گا۔ بجلی نے قہقہہ لگاتے ہوئے مقابلے کے لئے ہامی بھرلی۔
بجلی کے بعد ٹنکو شیرُو کے پاس پہنچا اور اسے کہنے لگا: تمہارا یہی خیال ہے نا کہ تم بڑے طاقتور ہو اور میں چھوٹا اور کمزور ہوں۔ اب میں تمہیں بتاؤں گا کہ ہم دونوں میں سے طاقتور کون ہے؟
اور یہ تم کیسے ثابت کرو گے چھوٹو؟ شیرُو نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔
تمہیں رسّہ کشی کے کھیل میں ہرا کر، ٹنکو نے اعتماد سے بھرپور جواب دیا۔
شیرُو کی رضامندی دیکھ کر ٹنکو نے ہاتھ میں پکڑے رسّے کا کنارہ اسے پکڑاتے ہوئے کہا:چلو! کھیل شروع کرتے ہیں۔
ٹھیک ہے لیکن یاد رکھو اگر تم ہار گئے تو دوبارہ مجھے تنگ نہیں کرو گے۔شیرو نے رسے کا کنارہ پکڑتے ہوئے کہا۔
اچھا اچھا! جب میں کہوں تب رسّے کو کھینچنا۔ ٹنکو نے درختوں کی طرف بھاگتے ہوئے کہا۔
درختوں کی دوسری طرف بیٹھے بجلی کو رسّے کا دوسرا کنارہ پکڑا کر ٹنکو واپس درختوں کے پاس آگیا اور ایک جھاڑی کے اندر چھپ کر زور سے چیخا:رسہ کھینچو!
شیرُو نے مسکراتے ہوئے رسّہ کھینچنا شروع کیا، لیکن جب دوسری طرف سے بھی رسّہ زور سے کھینچا گیا تو اس کی مُسکراہٹ غائب ہوگئی۔
اُدھر بجلی کو بھی رسّہ کھینچنے کے لئے بہت زور لگانا پڑ رہا تھا تو وہ بڑبڑایا:یہ ٹنکو تو بہت طاقتور ہے۔
بیچ میں درخت ہونے کی وجہ سے شیرُو اور بجلی میں سے کوئی بھی دوسرے کو نہیں دیکھ سکتا تھا اس لئے دونوں ميں سے ہر ایک یہی سمجھ رہا تھا کہ اس کا مقابلہ ٹنکو سے ہے۔مسلسل زور لگا کر دونوں کوسانس چڑھ گیا تھا مگر کوئی بھی مکمل رسّہ اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب نہ ہو سکا، جھاڑیوں میں چھپا ٹنکو دونوں کی حالت دیکھ کر ہنسی سے زمین پر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔
تھک ہار کر دونوں نے رسّہ چھوڑ دیا اور زمین پر بیٹھ کر ہانپنے لگے۔ دونوں کی یہ حالت دیکھ کر ٹنکو نے اپنا رسّہ اٹھایا اور خوشی سے اُچھلتا کودتا گھر کی طرف چل پڑا، جبکہ شیرُو اور بجلی میں سے ہر ایک یہ سوچ رہا تھا کہ چھوٹے سے ٹنکو نے انہیں کیسے ہرا دیا۔
پیارے بچّو! عقْل اللہ پاک کی بہت بڑی اور پیاری نعمت ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے ہم کئی مشکل کام بھی کرسکتے ہیں، لیکن پیارے بچو! عقل کا استعمال ہمیشہ کمزوروں کی مدد کرنےاور ان کی مشکلوں کو حل کرنے جیسےاچھے کاموں کے لئے ہی کرنا چاہئے۔
٭…ابو معاویہ عطاری مدنی
٭…ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی
Comments