(1)قبلہ کی طرف ٹانگیں پھیلانا،تُھوکناوغیرہ کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ جان بُوجھ کر قبلہ شریف کی طرف ٹانگیں پھیلانا، تُھوکنا، پیشاب کرنا وغیرہ یہ سوچتے ہوئے کہ اس سے کچھ نہیں ہوتا، نہ ہی ایسا کرنا گناہ ہےاور اسی طرح انجانے میں ایسا کرنے کے بارے میں شرعی راہنمائی فرمائیں کہ ایسا کرنا کیسا؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بغیرکسی صحیح عذرکےجان بُوجھ کرقبلہ شریف کی طرف ٹانگیں پھیلانا، تُھوکنا اور پیشاب کرنا شرعاً ممنوع و مکروہ افعال ہیں کہ اس طرح کرنے میں قبلہ شریف کی بےادبی ہے۔ان افعال میں ٹانگیں پھیلانے کا حکم مکروہ ہے، جبکہ تُھوکنے کی ممانعت زیادہ شدید ہے اور اسے حدیثِ مبارک میں اللہ و رسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کوایذا دیناقراردیا ہے اور علّامہ عینی علیہ الرحمۃ نے تو علّامہ قرطبی مالکی علیہ الرحمۃ کے حوالے سےاسے مکروہِ تحریمی قرار دیا ہے اور قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے کی ممانعت تو صریح احادیث اور تصریحاتِ فقہائے احناف کے مطابق گناہ ہے اور اس پر متعدد احادیثِ طیّبہ موجود ہیں، بلکہ اس معاملے میں تو قبلہ کو پیٹھ کر کےبھی پیشاب یا پاخانہ کرنا،ناجائز و گناہ ہے،لہٰذا یہ کہنا کہ اس میں کوئی گناہ نہیں،بالکل غلط ہےاور انجانے سے مراد اگر قبلہ کی جہت معلوم نہ ہو نا ہے تو پھر گناہ نہیں، لیکن جیسے ہی معلوم ہو،تو فوراً شریعتِ مطہرہ کے حکم کے مطابق اپنے فعل کی اصلاح کر لے،لیکن اگر انجانے سے مراد شرعی مسئلے سے لاعلمی ہے،تو یہ کوئی عذر نہیں کہ دارالاسلام میں شرعی مسائل سے جہالت عذر نہیں ہوتی، بلکہ حکم یہ ہے کہ شرعی مسائل سیکھے۔یادرہے!یہ احکام اس صورت میں ہیں کہ کوئی بداعتقادی نہ ہو، ورنہ معاذ اللہ کسی کا یہ اعتقاد ہو کہ قبلہ کوئی ایسی تعظیم والی شئ نہیں ہےاور اس وجہ سے ان میں سے کسی فعل کا ارتکاب کرے، تو قبلہ شریف کو ہلکا جاننے کی وجہ سے اُس پر حکمِ کفر ہو گا، لیکن کسی مسلمان سے ایسی سوچ متصور نہیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کتبــــــــــــــــــــــہ
مفتی محمد قاسم عطاری
(2)دورانِ خطبہ جمعہ کی سنتیں پڑھنا کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا خطبے کے دوران جمعہ کی سنتیں پڑھ سکتے ہیں؟ اگر دورانِ خطبہ شروع کردیں تو کیا حکم ہے؟اور اگر خطبہ سے پہلے شروع کر دیں تو خطبہ شروع ہونے پر کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
دورانِ خطبہ جمعہ کی سنتیں پڑھنا مکروہِ تحریمی، ناجائز و گناہ ہے،اگر دورانِ خطبہ سنتیں شروع کرلیں،تو توڑنا واجب اورغیرمکروہ وقت میں اس کی قضا کرنا واجب اور اگر مکمل کرلیں تو سنتیں ادا ہوجائیں گی مگر گنہگار ہوگا اور اگر خطبہ سے پہلے شروع کرلیں تھیں تو اب درمیان میں قطع نہ کرے، بلکہ چار رکعتیں مکمل پڑھے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مُجِیْب مُصَدِّق
عبدالرب شاکر عطاری مدنی مفتی محمد قاسم عطاری
(3)دن میں کب تک نفل روزے کی نیت کی جاسکتی ہے ؟
سوال:کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص رات کو نفلی روزے کی نیت کرکے سوئے اور فجر میں آنکھ نہ کُھلے،تو کیا وہ فجر کےبعد دن میں روزے کی نیت کرسکتا ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی ہاں! دن میں نفل روزے کی نیت کی جاسکتی ہے،کیونکہ نفل روزے میں رات کے وقت ہی نیت کرنا ضروری نہیں، بلکہ نفل روزہ میں دن کے وقت ضحوۂ کبریٰ یعنی نصف النہار شرعی سے پہلے پہلے تک بھی نیت کی جاسکتی ہے، لیکن اس میں یہ ضروری ہے کہ صبحِ صادق یعنی روزہ بند ہونے کے بعد سے ضحوۂ کبریٰ تک روزہ توڑنے والی کوئی چیز نہ پائی گئی ہواور نیت بھی یہ کی جائے کہ میں صبحِ صادق سے روزہ دار ہوں اور اگریہ نیت کی کہ اب سے روزہ دار ہوں،صبح سے نہیں، تو روزہ نہ ہوا۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کتبــــــــــــــــــــــہ
مفتی محمد قاسم عطاری
(4)لوہےوغیرہ کی انگوٹھی پہن کر نمازپڑھنا کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگرکوئی مَرد چاندی کے علاوہ لوہے، تانبے یا پیتل کی انگوٹھی پہن کر نماز پڑھے، تو اس نماز کا کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مَرد کو صرف چاندی کی ایک انگوٹھی، ایک نگ والی ، جس کا وزن ساڑھے چار ماشے سے کم ہو، پہننا جائز ہے، اس کے علاوہ کوئی انگوٹھی جائز نہیں، لہٰذا چاندی کے علاوہ لوہے، تانبے، پیتل یا سونے وغیرہ کی انگوٹھی مَرد کے ليے پہننا ناجائز و گناہ ہے اور اسے پہن کر نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی، واجبُ الاِعادہ ہے، لہٰذا ایسا شخص وہ ناجائز انگوٹھی اُتار کر ان نمازوں کا اعادہ کرے اور توبہ بھی کرے۔نیز آئندہ بھی کبھی ایسی انگوٹھی نہ پہنے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مُجِیْب مُصَدِّق
ابوحذیفہ محمدشفیق عطاری مدنی مفتی محمد قاسم عطاری
جسم ، روح اور دين كی سلامتی کا نسخہ
حضرت سیّدُنا بہاؤالدّین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:کم کھانے سے جِسْم تندرست رہتا ہے، گناہ چھوڑنے سے روح سلامت رہتی ہے اور اللہ پاک کے پیارے نبی، مُحَمَّدِ عَرَبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پردُرودِ پاک پڑھنے سے دین سلامت رہتا ہے۔(اخبار الاخیار، ص28)
Comments