عربی زبان کی خاص باتیں (دوسری اور آخری قسط)

گزشتہ سے پیوستہ

(8)صورتِ لفظ سےمعنیٰ کا انکشاف: عربی زبان کے اُصول و قواعد کو ایسے کمال کے ساتھ مرتّب و مدوّن کیا گیا ہے کہ اسے دیکھ کر عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں۔ اس زبان میں تمام کلمات کا اپنا ایک مادہ اور اصل ہوتی ہے جسے اصطلاح میں ”حُرُوفِ اَصلِیَہ(Root word)“ کہا جاتا ہے۔ان کی مدد سے بہت سے الفاظ تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ بنائے جاتے ہیں لیکن کمال دیکھئے کہ مادے میں حُرُوف کی ظاہری ترتیب ایسی شاندار ہوتی ہے کہ اصل کے معنیٰ ان تمام الفاظ میں نظر آتے ہیں جو اس سے بنائے گئے ہوتے ہیں جس کے سبب بہت سے الفاظ کے معانی (Meanings) آسانی سے معلوم ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اَلْجِنّ، اَلجَنَّۃ، اَلمَجْنُون، اَلجَنِین ان تمام الفاظ کی اصل ج،ن،ن ہے۔ جس کی ترکیب و مجموعہ میں ”پوشیدہ“، ”خِفا“ اور ”چُھپے ہونے“ کے معنیٰ پائے جاتے ہیں،  لہٰذا اب اس سے بنائے جانے والے کلمات میں یہ معنیٰ پائے جائیں گے۔ جِن (ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہوتے ہیں) جنّت (دنیا میں نظر نہیں آتی آنکھوں سے چھپی ہوئی ہے)، مجنون (وہ جس کی عقل پر پردہ پڑ گیا ہو اور وہ چُھپ گئی ہو)اور جَنِین (اس بچے کو کہتے ہیں جو ماں کے پیٹ میں ہونے کی وجہ سے ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہوتاہے)۔([1]) (9)مخارجِ حروف:ہرزبان والے اپنی زبان کے حروفِ تَہَجِّی (Alphabets) کی ادائیگی کے لئے کُل 6 اعضاء کا سہارا لیتے ہیں ”حَلْق، تالو، زبان، مسوڑا، دانت اور ہونٹ۔“ ادائیگیِ حُروف کے لئے ان 6اعضاء سے جتنا فائدہ عربی زبان نے اٹھایا ہے کسی اور زبان کی وہاں تک رسائی نہیں۔ دیگر زبانوں میں درجنوں حروفِ تَہَجِّی کے لئے8، 9 یا زیادہ سے زیادہ 10 مخارج مقرّر کئے گئے ہیں جبکہ عربی زبان کے حروفِ تہجی کی کل تعداد 29 ہے پھر بھی اس کے مخارج 17 اور بعض کے ہاں  19ہیں۔([2])(10)کثرتِ معنیٰ: کسی بھی زبان کی لُغَت استعمال کرنے والے  جانتے ہیں کہ ایک لفظ کے متعدَّد معانی ہوتے ہیں لیکن اس میدان میں بھی عربی زبان پہلے نمبر پر ہے، مثال کے طور پر لفظ ”عَیْن“ کے معانی ہی کو دیکھ لیجئے: سونا، نقد، آنکھ، کنویں کا دَہانَہ،نفسِ شے، گُھٹنا، جاسوس، بارش، چشمہ، ترازو کے پلّوں کا برابر نہ ہونا، نظرلگنا، مشکیزہ کا منہ وغیرہ اور بھی بہت سارے معنیٰ علمائے لُغَت نے بیان کئے ہیں۔([3]) (11)تفصیل:عربی زبان میں ہر ایک چیز کی تفصیل (Detail) ہے اور اس کے لئے جُدا جُدا الفاظ ہیں مثلاً کسی کے چھوٹے بچے کے بارے میں بتانا ہو تو اگر وہ انسان کا ہےتو: وَلَد،طِفْل۔ گھوڑوں کے لئے مُھْر۔ اونٹ: حُوَار، فَصِیل۔ گائے و بھینس: عِجْل۔ بھیڑ،بکری:سَخْلَۃ، عِنَاق اور  ہرن کے لئےخُشْفکا لفظ استعمال ہوتا ہے۔۔([4]) (12)صِلات: جُملوں میں کلمات کو ایک دوسرے سے ملانے اور رَبط قائم کرنے کے لئے جو حُروف استعمال ہوتے ہیں انہیں صِلات کہتے ہیں۔ ان صِلات کے استعمال میں عربی زبان اپنا مقام رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک فعل کے چند صِلے آتے ہیں لیکن وہی ایک فعل ہر صِلہ کے ساتھ ایک نئے معنیٰ پیدا کرتا ہے۔ جیساکہ ضَرَبْتُہ: میں نے اس کو مارا،ضَرَبْتُ لَہٗ مَثَلاً:میں نے اس سے کہاوت بیان کی،ضَرَبْتُ عَنْہٗ:میں نے اس سے منہ پھیر لیا، ضَرَبْتُ فِی الاَرْض: میں نے سفرکیا، ضَرَبْتُ اِلَیْہ: میں نے اس کی طرف اشارہ کیا۔

پیارے طلبہ!ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زبان عربی زبان کی خصوصیات یہیں تک بس نہیں بلکہ بہت سے ایسے اور کمالات بھی ہیں جسے میں اور آپ دورانِ دَرس و تَدرِیس دیکھنا اورسمجھنا چاہیں تو زیادہ مشکل نہیں، مثال کے طور پر اِشْتِقاق،  اَبواب، خاصِیاتِ ابواب، صِفاتِ حُروف، اِسمِ آلہ اور اِسمِ ظرف وغیرہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن میں دوسری زبانیں عربی کے مقابلے میں ایسی ہیں جیسے سورج کے سامنے چراغ۔

لہٰذا قراٰن، تفاسیر، کُتبِ احادیث اور عربی اَدَب کی کُتب پڑھتے وقت عربی کلام کی صَرفی نَحوی اَبحاث کے ساتھ ساتھ اَدَبی اور امتیازی  خوبیوں پر نظر رکھنے سے بہت سے نئے معنیٰ و مفہوم کے دروازے آپ کے سامنے کُھل جائیں گے۔

_______________________

٭…شاہ زیب عطاری مدنی   

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ ،کراچی  



([1])تفسیر نسفی،ص38

([2])المبین،ص61،60ملتقطاً

([3])المزھر للسیوطی،ج1،ص372

([4])القاموس المحیط،ص70ماخوذاً


Share