ڈرائیور کا کھانا بھی رِشوت؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہائی وے وغیرہ پر جو ہوٹلز ہیں ان کے مالکان گاڑیوں کے ڈرائیورز سے یہ طے کرتے ہیں کہ آپ اگر گاڑی ہمارے ہوٹل پر روکو گے تو آپ کا اور گاڑی کے دیگر عملے کا کھانا فِری ہوگا۔ ڈرائیور گاڑی اسی مخصوص ہوٹل پر روکتا ہے جس میں ڈرائیور اور گاڑی کے دیگر عملے کا تو کھانا فِری ہے البتہ مسافروں کو عُموماً مہنگا کھانا ملتا ہے۔ ڈرائیورز وغیرہ کے لئے اس کھانے کا کیا حکم ہے؟پھر ڈرائیورز صرف کھانا ہی نہیں کھاتےبلکہ سگریٹ اور بیلنس وغیرہ بھی لیتے ہیں۔ کیا یہ جائز ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:پوچھی گئی صورت میں ڈرائیور اور دیگر عملے کے لئے یہ کھانا کھانا اور سگریٹ و بیلنس وغیرہ دیگر چیزیں لینا حرام و گناہ اور رِشوت کے حکم میں داخل ہے کیونکہ ہوٹل والے اپنا کام نکلوانے کیلئے یہ کھانا وغیرہ دیتے ہیں تاکہ ڈرائیور گاڑی اسی ہوٹل پر روکےاور یہی رشوت ہے۔حدیثِ پاک میں ہے: ”عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ“ ترجمہ:حضرت سیّدُنا عبدُاللہ بن عَمْرو رضی اللہ عنہماسےروایت ہےکہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رشوت دینے والے اور لینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔(ترمذی،ج 3،ص66، حدیث:1342)بحرالرائق میں رِشوت اور تحفہ میں فرق کے حوالے سے ہے: ”أن الفرق بين الهدية والرشوة أن الرشوة ما يعطيه بشرط أن يعينه والهدية لا شرط معها“ترجمہ: ہدیے اور رشوت میں فرق یہ ہےکہ رشوت وہ مال ہے جو اس شرط کے ساتھ دیا جائے کہ رشوت لینے والا رشوت دینے والے کی کسی معاملے میں مدد کرے گا اور ہدیہ وہ مال ہے جس کے ساتھ کو ئی شرط نہ ہو۔(بحر الرائق،ج6،ص441)
اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”رشوت لینا مطلقاً حرام ہے کسی حالت میں جائزنہیں۔ جو پرایا حق دبانے کے لئے دیا جائے رشوت ہے یوہیں جو اپنا کام بنانے کے لئے حاکم کو دیا جائے رشوت ہے۔“(فتاویٰ رضویہ،ج 23،ص597)
اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنّت رحمۃ اللہ علیہ ایک اورمقام پر لکھتے ہیں:”بیع تو اس میں(اسٹیشن پرسودا بیچنے والے)اور خریداروں میں ہوگی، یہ (اسٹیشن پر سودا بیچنے کا ٹھیکہ لینے والا) ریل والوں کو روپیہ صرف اس بات کا دیتاہے کہ میں ہی بیچوں،دوسرا نہ بیچنے پائے، یہ شرعاً خالص رشوت ہے۔ (فتاویٰ رضویہ،ج 19،ص559)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کلیئرنگ ایجنٹ سے متعلق ایک سوال کا جواب
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کنٹینر وغیرہ باہر سے شپ کے ذریعے آتے ہیں اب جس کا کارگو ہوتا ہے وہ کسی اور سے ڈپازٹ لگواتا ہے اور جس سے ڈپازٹ لگواتا ہے اسے اس کا نفع بھی دیتا ہے جس شپنگ لائن کا کنٹینر اس کے پاس جاتا ہے وہ شپنگ لائن ڈپازٹ رکھتی ہے، کوئی بھی بندہ ڈپازٹ لگوا سکتا ہے، ایک یا ڈیڑھ لاکھ کا ڈپازٹ ہوتا ہے۔ اب اگر ہم اپنے پیسے ڈپازٹ لگاتے ہیں تو جب کنٹینر واپس شپنگ لائن کو ریسیو ہوجاتا ہے تو وہ ڈپازٹ کے پیسے ہمیں واپسی دے دیتی ہے اور جس کا کارگو تھا اس سے دو تین ہزار جتنی بات ہوئی تھی وہ مزید اس سے ہم وصول کرلیتے ہیں تو کیا یہ پیسے لینا جائز ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:پہلے تو ہم سوال کے پسِ منظر کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ جب کنٹینر باہر نکلتا ہے تو اسے خالی ہو کر واپس بھی آنا ہوتا ہے مثال کے طور پر کراچی سے رحیم یار خان گیا تو اب اگر وہاں سے واپس ہی نہ آئے تو کنٹینر والا پھنس جائے گا وہ اپنا خالی کنٹینر کیسے منگوائے گا؟ لہٰذا جس کا مال کنٹینر کے ذریعے جارہا ہے اس کے ذمّے یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ وہ کچھ زرِضمانت جمع کروائے اور جب کنٹینر واپس کرے تو یہ زرِضمانت اس کو واپس مل جائے۔ اب وہ مالکان جو مال امپورٹ کرتے ہیں وہ زرِضمانت کے طور پر پیسے جمع کروانے سے منع کردیتے ہیں تو کلیئرنگ ایجنٹ یہ رقم اپنی جیب سے لگاتا ہے اور جب مال زیادہ آتا ہے اور جمع کروانے کے لئے پیسے کم پڑتے ہیں تو وہ دیگر لوگوں سے پیسے پکڑتا ہے اور جمع کروادیتا ہے۔ اگر یہ پیسے وہ تاجر یا سیٹھ جمع کرواتا جس نے یہ کنٹینر منگوایا ہے تو پھر سارا معاملہ اصول کے مطابق ہوتا لیکن یہاں ایک آؤٹ سائیڈر اپنے پیسے دیتا ہے اور وہ اس لالچ میں پیسے دیتا ہے کہ اتنے پیسے دینے پر اتنا نفع اوپر ملے گا، یہ سودی معاملہ ہے کیونکہ اس نے جو رقم دی وہ قرض ہے اور قرض پر نفع لینا سود ہے جو کہ حرام و گناہ ہے۔حدیثِ مبارک میں ہے:”کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً فَھُوَ رِبًا“ ترجمہ:قرض کے ذریعہ سے جو منفعت حاصل کی جائے وہ سود ہے۔ (کنزالعمال،جز6،ج 3،ص99،حدیث:15512)
اس رقم کے قرض ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس رقم سے کوئی کاروبار کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ اسے لے کر زرِضمانت کے طور پر رکھ دیا جائے گا اور کنٹینر واپس ہونے پر وہ رقم اسے لوٹا دی جائے گی اور رقم والے کو فکس نفع ملے گا جو کہ قرض پر نفع ہے۔
واضح رہے کہ اس کے علاوہ بھی کلیئرنگ ایجنٹس کی غالب اکثریت بہت سے ناجائز کام کرتی ہے مثلاً رشوت دینا، غلط ڈاکومنٹس کے ذریعے مال کلیئر کروانا، دھوکا دینا وغیرہ۔ان تمام ناجائز کاموں سے بچنا ضروری ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
٭…مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی
٭…دارالافتاء اہل سنت نور العرفان ،کھارادر کراچی
Comments