اللہ پاک کےفضل و کرم سے ’’المُؤتَمَرُ الصُّوفی‘‘ (یعنی صوفی کانفرنس) میں میرے عربی بیان(Arabic Speech) اور دعوتِ اسلامی وبانیِ دعوتِ اسلامی امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تعارفی وڈیو(Presentation) کا مرحلہ بحسن و خوبی انجام کو پہنچا ۔نمازِ مغرب ادا کرنے کے بعدچائے وغیرہ کا سلسلہ ہوا۔اس دوران کئی علمائے کرام سے ملاقات ہوئی جنہوں نے کافی محبت سے نوازا۔ ملتے ملاتے نمازِ عشا کا وقت ہوگیا اور نماز کے بعد عربی زبان میں محفل کا سلسلہ ہوا۔عموماً ایسا ہوتا ہے کہ کوئی بڑا کام کرنے کے بعد انسان کو کافی تھکن محسوس ہوتی ہے ۔پچھلے کئی دنوں سے اس کانفرنس میں عربی بیان اور Presentation کی تیاری جاری تھی ،اب یہ کام خیر و عافیت سے مکمل ہوا تو مجھے کافی تھکن محسوس ہورہی تھی ۔کچھ دیر محفل میں شریک ہونے کے بعد جب آنکھیں بند ہونے لگیں تو میں جاکر سوگیا۔ کافی عرصے بعد رات تقریباً نو بجے سونے کا اتفاق ہوا تھا۔
نیند سے بیدار ہوکر موبائل میں مشغولیت کا نقصان : رات تقریباً پونے دو بجے آنکھ کھلی اور طبعی حاجات(Natural Requirements) سے فارغ ہوکر موبائل دیکھا تو پیغامات (Messages)کی بھرمار تھی جنہیں دیکھتے ہوئے نیند متأثر ہوگئی۔ پھرمختلف پیغامات کا جواب دیتے دیتے اور رابطے و مشورے کرتے کرتے رات گزر گئی ۔ اس موقع پر مجھے یہ سیکھنے کو ملا اور ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین کے لئے بھی یہ بہت کارآمد مدنی پھول ہے کہ اگر رات میں کسی وجہ سے آنکھ کھل جائے تو موبائل فون میں پیغامات وغیرہ کی طرف توجہ نہ کی جائے ورنہ دوبارہ نیند آنا مشکل ہوجائے گا۔
رفیقِ سفر کی واپسی :گزشتہ قسط میں آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر (Businessman)اعجاز بھائی کا ذکر کیا گیا تھا جو آسٹریلیا سے تقریباً 6گھنٹے کا فضائی سفر کرکے یہاں ہمارے قافلے میں شریک ہوئے تھے۔نمازِ فجر کے بعد اعجاز بھائی کی واپسی تھی ، انہیں الوداع ( See Off) کرنے کے بعد کچھ دیر مزید آرام کیا۔
کانفرنس کی آخری نِشَسْت میں شرکت:’’المُؤتَمَرُ الصُّوفی‘‘ (صوفی کانفرنس) کی آخری نِشَسْت آج دن 11بجے شروع ہونی تھی۔یہ آخری نِشَسْت ہمارے ہوٹل سے تقریباً آدھے گھنٹے کی مسافت پر منعقد ہونی تھی۔تقریباً 10 بجے ہم اس نِشَسْت میں شرکت کے لئے روانہ ہوئے ۔وہاں پہنچے تودیکھا کہ ہزاروں کی تعداد میں عاشقانِ رسول جمع تھے۔اسٹیج پر علمائے کرام کے علاوہ انڈونیشیا کے ایک وفاقی وزیر (Federal Minister) اورہمارے میزبان (Host) شیخ حبیب لطفی بھی موجود تھے۔اس آخری نِشَسْت میں مختلف قرار دادیں پیش کی گئیں اور یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ورلڈ صوفى کانفرنس کى طرف سے صوفى چىنل اور صوفى ىونىورسٹى بھى بنائى جائے گى۔اللہ کریم کے کرم سے ىہ آخرى سىشن بھى اچھے انداز میں مکمل ہوا اور ہم اپنے ہوٹل واپس پہنچ گئے۔
عُلَمائے کرام سے ملاقاتیں:’’ المُؤتَمَرُ الصُّوفی‘‘ (صوفی کانفرنس) کی آخری نشست کے بعد ہم نے علمائے کرام سے بھرپور ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ یوں تو متعدد علما سے ملاقات ہوئی لیکن ہماری توجہ کا مرکز بالخصوص وہ حضرات تھے جن کے ملکوں میں دعوتِ اسلامی کا مدنی کام ابھی باقاعدہ شروع نہیں ہوا یا پھر ابتدائی مرحلے(Initial Stage) میں ہے۔افریقی ملکوں البانىہ، نائیجىرىااور مالى سے تعلق رکھنے والے کئی علما سے ہم نے رابطے کئے اور انہیں دعوتِ اسلامی سے قریب لانے کی کوشش کی۔نائیجىرىامیں اگرچہ دعوتِ اسلامی کا کام شروع ہوچکا ہے لیکن ابھی مزید تعاون کی ضرورت ہے۔جامعۃُ الاَزْھرمصر کےاستاذ اور بہت بڑے عالم شیخ مہناسے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے ہمیں الازھر یونیورسٹی آنے کی دعوت دی۔
مجلس بیرونِ ملک:تقریباً دنیا بھر میں ہونے والے دعوتِ اسلامی کے مدنی کاموں کو منظم (Manage) کرنے کے لئے مختلف مجالس بناکر ان میں کام تقسیم کیا گیا ہے۔ان میں سے ایک اہم مجلس کا نام ’’مجلس بیرونِ ملک(Overseas Majlis)‘‘ ہے جس کے مختلف ذمہ داران دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والے مدنی کاموں کے معاملات کو دیکھتے ہیں۔ ہم جس ملک کے علما سے ملاقات کرنے جاتے اس ملک کی’’مجلس بیرونِ ملک‘‘ کے متعلق ذمہ دار سے رابطے میں رہتے اور ان کی راہنمائی میں بات چیت کرتے ۔
افغانستان میں عاشقانِ رسول کی بہاریں:علمائے کرام سے ملاقاتوں کے دوران اىک بڑا خوشگواررابطہ افغانستان کے اىک بزرگ سے ہوا جو مَا شَآءَ اللّٰہ صحیحُ الْعقیدہ عاشقِ رسول ہیں۔ان بزرگ سے ہونے والی گفتگو کے ذریعے کئی غلط فہمیوں(Misconceptions) کا خاتمہ ہوا۔بزرگ نے بتایا کہ افغانستان کی اکثر آبادی صحیحُ الْعقیدہ عاشقانِ رسول پر مشتمل ہے۔ہم نے ہاتھوں ہاتھ ’’مجلس بیرونِ ملک‘‘کے افغانستان سے متعلق ذمہ دار حاجی امتیاز عطاری سے ویڈیو کانفرنس پر ان کی بات کروائی ۔بزرگ نے ہمیں مدنی قافلے میں افغانستان آنے کی دعوت بھی دی اوراللہ پاک کی رحمت سے وہ دن دور نہیں جب افغانستان میں بھی دعوتِ اسلامی کے مدنی کاموں کی دُھوم دھام ہوگی۔
واپسی کا سفر:شام تقرىباً ساڑھے پانچ بجے ہمارا قافلہ پَکالونگان (Pekalongan)سےسیمارانگ(Semarang)اىئرپورٹ کے لئے روانہ ہوا جہاں سے ساڑھے سات بجے جکارتہ کے لئے ہماری فلائٹ تھی ۔ سارے علما نے ایک ساتھ ہی نکلنا تھا اس لئے گاڑىاں تاخىر سے روانہ ہوئیں،تقرىباً 6بجکر50 منٹ پر ہم سیمارانگ اىئرپورٹ پہنچے اور ہمیں فوراً VIP لاؤنج مىں پہنچادىا گیا ۔کچھ دیر بعد انتظامیہ(Management) کے افراد نے ہمیں جہاز میں بٹھادیا اور کہا گیا کہ فکر نہ کریں، آپ کا سامان(Luggage) بھی پہنچ جائے گا۔ جکارتہ پہنچ کر معلوم ہوا کہ ہمارا سامان نہیں پہنچ سکا۔ کانفرنس کے منتظمین نے سب سے معذرت کی اور یقین دلایا کہ آپ کا سامان آپ کے ملک پہنچادیا جائے گا۔اس موقع پر بعض حضرات نے ناراضگی کا اظہار بھی کیا لیکن مدنی ماحول کی برکت سے میں نے صبر کرتے ہوئے یہی ذہن بنایا کہ اس میں ان بے چاروں کا قصور نہیں۔
؏اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
پیارے اسلامی بھائیو! عموماً سفر کے دوران ہر کام انسان کی خواہش کے مطابق نہیں ہوپاتا اور بعض اوقات تکلیف و پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔تمام اسلامی بھائی بالعموم اور قافلوں کے ذریعے راہِ خدا میں سفر کرنے والے عاشقانِ رسول بالخصوص سفر کے دوران صبر کرنے کا ذہن بنائیں ۔ ایسے موقع پر بے صبری کرنے اور واویلا مچانے سے تکلیف اور پریشانی تو دور نہیں ہوتی البتہ صبر کا ثواب ضائع ہوسکتا ہے۔ اللہکریم ہمارایہ سفرقبول فرمائےاوردعوتِ اسلامی کے مدنی کاموں کو ترقی و عروج عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نوٹ: یہ مضمون مولانا عبد الحبیب عطاری کے آڈیو پیغامات وغیرہ کی مدد سے تیار کر کے انہیں چیک کروانے کے بعد پیش کیا گیا ہے۔
٭…مولانا عبد الحبیب عطاری
٭…رکن شوریٰ ونگران مجلس مدنی چینل
Comments