دکان داروں کے باہمی لین دین میں ایک احتیاط: مارکیٹ میں کام کرتے وقت دکان داروں (Shop Keepers) کو ایک دوسرے سے لین دین کی ضَرورت پیش آتی ہے مثلاً کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی دکان دار کے پاس پارٹی پیمنٹ لینے کے لئے آتی ہے اور اس وقت اس کے پاس کیش موجود نہیں ہوتاتو وہ دوسرے دکان دار سے اُدھار لےکر پارٹی کو پیسے ادا کرتا ہے، یوں ہی بعض اوقات ایک دکان دار کے پاس جب کسٹمر کوئی ایسی چیز طلب کرتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہوتی یا اس کے پاس ختم ہوگئی ہوتی ہے تو وہ اپنی فیلڈ کے دوسرے دکان دار سے وہ چیز لے لیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ دکان داروں کا یہ باہمی لین دین چلتا رہتا ہے لیکن دیگر شرعی احتیاطوں کے ساتھ ساتھ اس میں ایک احتیاط یہ ہونی چاہئے کہ حساب کتاب جلد سے جلد کرتے رہنا چاہئے ورنہ جھگڑے کی صورت بن سکتی ہے کہ ایک کہے گا: میں نے تمہارے پیسے واپس کردئیے ہیں اور دوسرا کہے گا کہ نہیں دئیے یا ایک کہے گا:تم میری دکان سے فلاں چیز بھی لے کر گئے ہو، دوسرا کہے گا: میں تو نہیں لے کر گیا یا کہے گا کہ کسٹمر کو سمجھ نہ آنے کے باعث میں نے وہ چیز واپس بھجوادی تھی یا یہ تو پہلے کا حساب ہے اس کے پیسے تو میں نے پہلے ہی دے دئیے تھے، تم نے اس حساب کو کاٹا نہیں ہے اور یوں معاملہ اُلجھ کر رہ جائے گالہٰذا جب بھی کسی کو قرض دیں تو اس کو لکھ لیا کریں اور قرض لینے والا بھی جب قرض واپس کرے تو اس لکھے ہوئے کو کٹوادےتاکہ بعد میں جھگڑے کی کوئی صورت نہ بنے۔ مختلف قسم کے بورڈ: مارکیٹ میں لوگ ایک دوسرے سے قرض کا لین دین تو کرتے ہیں مگر ہوتا یہ ہے کہ قرض لینے تو خود جاتے ہیں اور جب واپس کرنے کی باری آتی ہے تو قرض دینے والے کو خود جا کر یا اپنا بندہ بھیج کر منگوانا پڑتا ہے اور بعض اوقات تو بہت رُلا رُلا کردیتے ہیں۔ اس طرح قرض دینے والوں کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں اورکبھی تو ہڑپ بھی کرجاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی ایک تعداد قرض دینے سے کتراتی ہے اوراس بڑی نیکی سے دور رہتی ہے، بعض دکان داروں نے تو اُدھار نہ دینے کے لئے اپنی دکانوں پر مختلف قسم کی تحریروں پر مشتمل بورڈز لگائے ہوتے ہیں۔قرض کی وُصولی میں نرمی:جب قرض کی وُصولی کا وقت آئے تو قرض دینے والے کو چاہئے کہ نرمی سے کام لے اور کوئی ایسی بات یا عمل نہ کرے جو معیوب ہو۔ابے تبے، تو تڑاق، غصے اور گالی گلوچ سے بچتے ہوئے پیار محبت سے اپنا مال واپس لینے کی کوشش کرے۔حدیث شریف میں ہے: ناپسندیدہ قول اور فعل سے بچتے ہوئے اپنا حق وُصول کرو، خواہ وہ حق پورا وُصول ہو یا نہ ہو۔([1]) مَقْرُوض اور قرض خواہ میں صلح صفائی:اگر قرض لینے اور دینے والے کے درمیان بحث چِھڑ جائے تو تیسرے شخص کو ان کے بیچ آکر صلح صفائی کرانی چاہئے تاہم اس کا میلان اور اس کی حمایت قرض لینے والے کی طرف ہونی چاہئے کیونکہ قرض خواہ کے پاس پیسہ ہوتا ہے اسی وجہ سے وہ اسے قرض دیتا ہے جبکہ قرض لینے والا حاجت مند ہوتا ہے اور اپنی اسی مجبوری کے باعث وہ قرض لیتا ہے۔البتہ!اگر مَقْرُوض اپنی حد سے بڑھ جائے یوں کہ ادائیگی کی قدرت کےباوجود ٹال مٹول سے کام لےتو اُسے اس ظلم سے روکنے کے لئے اب قرض دینے والے کی طرف داری کرنی ہوگی۔ حدیث شریف میں ہے: اپنے بھائی کی مدد کروخواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ کسی نے عرض کی: یارسولَ اللہ! اگر وہ مظلوم ہو تو مدد کروں گا لیکن ظالم ہو تو کیسےمدد کروں؟ارشاد فرمایا:تمہارا اُسے ظلم سے روکنا اس کی مدد ہے۔([2])
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے آپس کے لین دین کو شریعت کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
٭…عبدالرحمٰن عطاری مدنی
٭…ماہنا مہ فیضان مدینہ کراچی
Comments