اُمّتیوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں

رَحْمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے 2 خُصوصی فضائل

(1)اُمّت کے اعمال پیش ہوتے ہیں: ہر روز صبح اور شام اُمّت کے تمام اعمال سیّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔اُمّت کے نیک اعمال پر آپ اللہ پاک کا شُکر ادا کرتے جبکہ بُرے اعمال پر بخشش طَلَب فرماتے ہیں۔[1]

حیات اور ظاہری وِصال دونوں میں خیر: سیّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:میراجینا تمہارے لئے بہتر ہے، تم مجھ سے باتیں کرتے ہو اور ہم تم سے تمہارے فائدے کی باتیں کرتے ہیں۔ جب میں انتقال فرماؤں گا تو میری وفات تمہارے لئے بہتر ہوگی۔ تمہارے اعمال مجھ پر پیش کئے جائیں گے، اگر نیکی دیکھوں گا تو اللہ پاک کی حمد کروں گا اور بُرائی پاؤں گا تو تمہارے لئے اللہ کریم سے مغفِرت طلب کروں گا۔[2]

ہر اُمّتی کے حال سے آقا ہیں باخبر:امامِ اہلِ سنّت، امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:صرف دُرود و سلام ہی نہیں بلکہ اُمّت کے تمام اَقوال و اَفعال و اَعمال روزانہ دو و قت سرکارِ عرش وقار،حُضور سَیِّدُ الْاَبْرَار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم ( کی خدمت) میں عرض (یعنی پیش) کئے جاتے ہیں۔ احادیثِ کثیرہ میں تصریح ہے کہ مطُلقاً اعمالِ حَسَنَہ و سَیّئَہ(یعنی ہر طرح کے اچھے اور بُرے عمل) سب حُضورِ اَقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں اور یونہی تمام انبیائے کرام علیہم الصَّلٰوۃ وَالسَّلام اور والدین و اَعِزّاء و اَقارِب سب پر عَرضِ اعمال (یعنی اعمال کی پیشی) ہوتی ہے۔ فقیر نے اپنے رِسالہ سَلْطَنَۃُ الْمُصْطَفٰی  فِیْ مَلَکُوْتِ کُلِّ الْوَرٰیمیں وہ سب حدیثیں جمع کیں، یہاں اسی قدر بس (یعنی کافی) ہے کہ امامِ اَجَل عبدُاﷲ بن مبارک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ حضرت سعید بن مُسَیَّب رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی: لَيْسَ مِنْ يَوْمٍ  اِلَّا وَتُعْرَضُ عَلَى النَّبِى صلَّى الله عليه وسلَّم اَعْمَالُ اُمَّتِهٖ غُدْوَةً وَّعَشِيّاً فَيَعْرِفُهُمْ بِسِيْمَاهُمْ وَاَعْمَالِهِمیعنی کوئی دن ایسا نہیں جس میں نبی  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہٖ وسلَّم پر ان کی اُمّت کے اعمال صبح و شام دو دفعہ پیش نہ ہوتے ہوں، تو حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم انہیں ان کی نشانیٔ صورت سے بھی پہچانتے ہیں اور ان کے اعمال سے بھی، صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم۔[3]

فقیر غَفَرَ اﷲُ تَعَالٰی لَہٗ بِتَوْفِیقِ اﷲ عَزَّوَجَلَّ اس مسئلے میں ایک کتابِ مَبسُوط(یعنی تفصیلی کتاب)لکھ سکتا ہے مگر مُنْصِف (یعنی انصاف کرنے والے) کے لئے اسی قدر وافی،اورخدا ہدایت دے تو ایک حرف کافی۔[4]

ہفتے میں کتنی مرتبہ اعمال پیش ہوتے ہیں؟اے عاشقانِ رسول! یاد رکھئے! رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں اُمّت کے اعمال کی پیشی روزانہ صبح و شام ہونے کے علاوہ ہر پیر، جمعرات اور جمعہ کے دن بھی ہوتی ہے جس کا تذکرہ مختلف روایات میں موجود ہے۔امامِ اہلِ سنّت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بارگاہِ حُضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) میں اعمالِ اُمّت کی پیشی روزانہ ہر صبح و شام کو الگ ہوتی ہے پھر ہر دو شَنبَہ (یعنی پیر) اور پَنج شَنبَہ (یعنی جمعرات) کو جُدا، پھر ہر جمعہ کو ہفتہ بھر کے اعمال کی پیشی جُدا۔[5]

سیہ ہیں نامۂ اعمال اپنے گرچہ اے زاہد

مگر کافی ہے دُھلنے کے لئے چھینٹا محمد کا[6]

(2)حق ہی فرمایا کرتے:سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ناراضی اور خوشی ہر حالت میں صِرف حق بات ہی فرماتے۔[7]

مجھ سے سُنی ہوئی ہر بات لکھ لو:حضرت سیّدُنا عبدُاللہ بن عَمْرو رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے جو بات بھی سنتا اُسے لکھ لیتا تاکہ اُسے یاد کرسکوں۔ قریش نے مجھے اس سے منع کیا اور کہا:کیا تم جو بات سنتے ہو لکھ لیتے ہو؟ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انسان ہیں، ناراضی اور خوشی دونوں حالتوں میں کلام کرتے ہیں۔ (یہ سُن کر) میں نے لکھنا چھوڑدیا۔ پھر جب میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اس بات کا تذکِرہ کیا تو آپ نے مبارَک انگلی سے اپنے مقدس منہ کی طرف اشارہ کرکے ارشاد فرمایا:اُكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِيْ بِيَدِہٖ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ اِلَّا حَقٌّ یعنی (مجھ سے سُنی ہوئی ہر بات) لکھ لو! اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اِس (یعنی میرے منہ) سے صِرف حق ہی نکلتا ہے۔[8]

وہ دَہَن جس کی ہر بات وَحیِ خدا

چشمۂ علم و حکمت پہ لاکھوں سلام[9]

کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کہتے: اللہ کریم کا فرمانِ عظیم ہے:( وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴)) تَرجَمۂ کنزُ العِرفان: اور وہ کوئی بات خواہش سے نہیں کہتے۔ وہ وحی ہی ہوتی ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔[10] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس کے تحت ”تفسیرِنورُالعرفان“ میں فرماتے ہیں:قرآن و حدیث سب وحیِ الٰہی ہے جیسا کہ اس آیت سے معلوم ہوا، البتہ قرآن ظاہری وحی ہے اور حدیث خَفِی (یعنی پوشیدہ وحی ہے)۔شارحِ بخاری مفتی شریفُ الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:یہ حق و صحیح ہے کہ حُضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کی ہر بات وحیِ خدا ہے خواہ یہ ظاہری ہو یا باطِنی، اس لیے کہ آیتِ کریمہ( وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴))  کا یہی مَفادہےکہ حُضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم بغیر وحی کے کوئی بات نہیں فرماتے۔[11] مفتیِ اعظم ہند حضرت علّامہ مولانا مصطفےٰ رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

ہوا  سے پاک جس کی ذاتِ قُدسی

وہ جس کی بات بھی وَحیِ خدا ہے

نہیں کہتے ہوائے نفس سے کچھ

جو فرمائیں وہی وحیِ خدا ہے[12]



([1])زرقانی علی الموا ھب،ج7،ص373،انموذج اللبیب ،ص230

([2]) مسند بزار،ج 5،ص308، حدیث:1925

([3])مواھب لدنیہ،ج2،ص314

([4]) فتاویٰ رضویہ ،ج 29،ص568،521

([5])فتاویٰ رضویہ،ج 29،ص522

([6]) قبالۂ بخشش،ص31

([7]) انموذج اللبیب، ص200

([8]) ابوداؤد،ج 3،ص445،حدیث:3646

([9]) حدائقِ بخشش، ص302

([10]) پ27، النجم:3، 4

([11]) فتاویٰ شارحِ بخاری،ج1،ص371

([12]) سامانِ بخشش، ص200


Share