اللہ کریم کی نشانیوں میں سے ایک نشانی زبانوں کامختلف ہونا بھی ہے کہ کوئی عَرَبی زبان بولتا ہے تو کوئی دوسری زبان۔اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے:( وَ مِنْ اٰیٰتِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَ اَلْوَانِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّلْعٰلِمِیْنَ(۲۲))
تَرجَمۂ کنزُالایمان: اور اس کی نشانیوں سے ہے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف بےشک اس میں نشانیاں ہیں جاننے والوں کے لیے۔ ([1]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اے عاشقانِ رسول!زبان کے ذریعے ہی انسان اپنے خیالات، احساسات اور معلومات کو آسانی سے ظاہر کرسکتا ہے۔ ایک تحقیق (Research) کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً سات ہزار زبانیں(Languages)بولی جاتی ہیں۔لیکن ان تمام زبانوں میں سے عربی زبان کو جس قدر خصوصیات (Specialties) حاصل ہیں کسی اور زبان میں یا تو اس کا تصوُّر ہی نہیں یا پھر عربی جیسا کمال نہیں۔
آئیے! عربی زبان کی12خصوصیات ملاحظہ فرمائیے:
(1)اولین زبان:انسانِ اوّل حضرت سیّدُنا آدم علیہ السَّلام جب دنیا میں تشریف لائے تو آپ کی زبان عربی تھی۔ اس اعتبار سے عربی زبان سے زیادہ قدیم زبان آج دنیا میں کہیں موجود نہیں ہے۔ ([2])
(2)جنّت کی زبان:قراٰنِ کریم اور رَحْمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک احادیث نیز اسلامی کتابوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ عربی زبان میں ہے یونہی جنّت والوں کی زبان بھی عربی ہوگی۔ ([3])
(3)عالمی زبان: اسلام کی روشنی جیسے جیسے دنیا میں پھیلتی چلی گئی ویسے ویسے عربی زبان دنیا بھر میں عام ہوتی چلی گئی حتّٰی کہ اب یہ ان دس زبانوں میں شمار ہوتی ہے جو عالَمی سطح (International Level) پر بولی جاتی ہیں۔
(4)مذہبی زبان:اللہ پاک نے عربی زبان کو دینِ اسلام کی مذہبی و سرکاری زبان کے طور پرمتعیّن(Fixed)فرمایا ہے ([4])اسی لئے اُمّتِ محمدیّہ کے نبی عربی، کتاب بھی عربی اور آپ کے اصحاب کی ایک تعداد بھی عربی ہے۔ یہی انداز دنیا کی عارضی حکومتوں اور سلطنتوں میں بھی نظر آتا ہےکہ انہوں نے بھی ایک مخصوص زبان اپنا رکھی ہوتی ہے جس میں ان کے ملکی قوانین مرتّب ہوتے ہیں اورحکومت کے ہر شعبہ (Department) میں وہی زبان جاری ہوا کرتی ہے۔
(5)اِختِصار:عربی زبان میں مُفرَدات اورجملوں(Sentences) کے استعمال میں زیادہ سے زیادہ اختصار سے کام لیا جاتا ہے یعنی جتنا کم سے کم حروف کا لفظ بن سکتا ہو یا جملہ استعمال کیا جا سکتا ہو اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔جس کے لئے انہیں حَذْف، اِدْغام،تَشْبیہاتاوراِسْتِعارہ وغیرہ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اسی لئے عربی کا مضمون اپنی جامعیّت اور سَلاست (یعنی روانی اور کمال) کے عُروج پر ہوتے ہوئے بھی دیگر زبانوں کی بنسبت کم سے کم صفحات پر لکھا ہوا نظر آئے گا۔
(6)مُفرَدات کا بہت زیادہ ہونا:عربی زبان بہت وسیع ہے ایک معنیٰ کو ادا کرنے کے لئے بہت سے الفاظ استعمال ہوتے ہیں حتّٰی کہ حضرت سیّدُنا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نبی کے علاوہ کسی ایسے شخص کا پتا نہیں جو تمام عربی کو جانتا ہو۔ ([5])اس کثرت کا اندازہ اس مثال ہی سے لگا لیجئے کہ اُردو میں
”شیر (Lion)“کے لئے ایک لفظ شیر آتا ہے اورعربی سے تھوڑی بہت واقفیت رکھنے والے اس کے لئے تین الفاظ سے واقف ہوتے ہیں ”لَیْث، اَسَد اور غَضَنْفَر“ جبکہ اہلِ عرب ایک قول کے مطابق150اور دوسرے قول کے مطابق 500 تک الفاظ اس کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ([6])
(7)حَرَکات: عربی زبان میں ہر لفظ کے آخر میں آنے والی حَرَکت (زَبَر، زیر، پیش) اس لفظ کی حیثیت کو بیان کرتی ہے۔ اس حرکت کی وجہ سے معنیٰ کو سمجھنا بہت آسان ہوجاتا ہے، اگر اسے ختم کر دیا جائے یا بدل دیا جائے تو صحیح معنیٰ معلوم ہی نہ ہوسکیں گے۔ مثال کے طور پر:”مااحسن زید“ کا مطلب کیا ہے یہ اِعراب کے بغیر واضح نہیں ہوسکتا۔ مختلف اِعراب لگانے کے بعد دیکھئے اس کا معنیٰ کیا بن جاتا ہے۔
”مَا اَحْسَنَ زَیْدٌ“ کا معنیٰ ہے زید نے نیکی نہیں کی۔ ”مَا اَحْسَنَ زَیْداً“ کا مطلب ہے زید کتنا ہی بڑا نیکوکار ہے۔ ”مَا اُحْسِنُ زَیْداً“ کا مَدْلُول ہے زید کے ساتھ میں نیکی نہیں کروں گا۔ ”مَا اُحْسِنَ زَیْدٌ“ کا مقصود ہے زید کے ساتھ نیکی نہیں کی گئی۔ (بقیہ آئندہ شمارے میں)
٭…شاہ زیب عطاری مدنی
٭…ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی
Comments