استاذ صاحب(Teacher) نے وائٹ بورڈ پر ایک لائن کھینچی اورطَلَبہ(Students) سے پوچھنے لگے:آپ میں سے کون اس لائن کو چُھوئے اور مٹائے بغیر چھوٹا کرسکتا ہے؟ایک طالبِ عِلْم نے فوراً عرض کی:اس لکیر کو چھوٹا کرنے کے لئے کچھ حصّہ مٹانا پڑے گا اور آپ چُھونے اور مٹانے سے منع کررہے ہیں،یہ چھوٹی نہیں ہو سکتی۔ استاذ صاحب نے دیگر طَلَبہ کی طرف سُوالیہ نظروں سے دیکھا تو انہوں نے بھی سرہلا کر تائید کردی۔اب استاذ صاحب نے ایک بڑی لائن اس لائن کے برابر میں کھینچ دی اور بولے:اب بتاؤ! پہلی لائن چھوٹی ہوئی یا نہیں؟حالانکہ میں نے اسے چُھوا تک نہیں اور نہ ہی مٹایا ہے! طَلَبہ کہنے لگے: یہ تو کمال ہوگیا!
استاذ صاحب نے مارکر ٹیبل پر رکھا اور بولنا شروع کیا: آج ہم نے کتابِ زندگی کا بڑا اہم سبق(Lesson) سیکھا ہے کہ کس طرح دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر ان سے آگے نکلا جاسکتا ہے، ان کو ڈی گریڈ کئے بغیر زیادہ عزت کمائی جاسکتی ہے؟دَراَصْل! دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش انسان کی نفسیات میں شامل ہے چاہے وہ کسی بھی شعبےاور طَبَقے سے تعلق رکھتا ہو! وہ اسٹوڈنٹ ہو، تاجر ہو، ملازم ہو، کھلاڑی ہو، ڈاکٹر ہو، وکیل ہو، پروفیسر ہو، رائٹر ہو یا کوئی اور! لیکن اگر وہ اپنی ترقی کے لئے اپنا قد بڑھانے کے بجائے دوسروں کی ٹانگیں کاٹ کرانہیں چھوٹا بنانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ نیگیٹو اپروچ ہے، جبکہ پازیٹو اپروچ یہ ہے کہ اپنی مہارت،خصوصیت اور کارکردگی کو بہتر کیا جائے،اس طرح آپ کسی کی قدر کم کئے بغیر فتح کی منزل (وکٹری اسٹینڈ) تک پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن افسوس!یہ ہمارا معاشرتی اَلْمِیہ (Social Disaster)ہے کہ جیتنے کے لئے پہلا طریقہ زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، مثلاً ٭تاجر اپنی تجارت چمکانے کے لئے دوسرے تاجر کی ساکھ اور شُہرت خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے ٭ملازم پروموشن پانے کے لئے اپنے مدِّمُقابل(Competitor) کو بدنام کرتا ہے یا اسے نوکری سے ہی نکلوانے کی کوشش کرتا ہے ٭طالبِ عِلم امتحانات (Examinations)میں پوزیشن پانے کے لئے دوسرے کا رزلٹ خراب کرنے کے لئے اس کا وقت برباد کرتا ہےیا اس کے نوٹس وغیرہ غائب کر دیتا ہے٭ایک ڈاکٹر دوسرے ڈاکٹروں کو نااہل (Incompetent) اور نِکَمّا ثابت کرکے اپنا کلینک چمکانے کی کوشش کرتا ہے ٭نعت خواں اپنا قد کاٹھ بڑھانے کےلئے دوسرے نعت خوانوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔اس نیگیٹو اپروچ کا ایک نقصان تو یہ ہوسکتا ہے کہ جو گڑھا اس شخص نے کسی کے لئے کھودا اس میں خود جاگرے اور اسے لینے کے دینے پڑ جائیں۔ دوسرا نقصان یہ کہ کسی کی پوزیشن ڈاؤن کرنے کے لئے اس پر جھوٹے الزامات لگائے،اس کے عیب اُچھالے،اس کی غیبتیں کیں،دل آزاری کی تو گناہوں کا انبار اعمال نامے میں جمع ہونا شروع ہوجاتا ہےجس کا سازشیں کرنے والے کو احساس تک نہیں ہوتا، اس کے سر پر تو فقط دوسرے کو ہرانے کا بُھوت سوار ہوتا ہے! گناہوں کا احساس ہی نہ ہو تو تَوبہ کا ذہن کیسے بنے گا؟ آخِرت کے عذابات سے یہ شخص کیونکر بچ سکے گا؟
اگلا پیریڈ شروع ہوچکا تھا، کلاس رُوم سے رخصت ہونے سے پہلےاستاذ صاحب نے تاکید کی: پیارے طَلَبہ! زندگی میں ترقی پانے کے لئے کبھی بھی منفی طریقہ نہ اپنائیے گا۔ اللہ پاک ہمیں اپنی ناراضی والے کاموں سے بچائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
٭…کاشف شہزاد عطاری مدنی
٭…ماہنامہ فیضان مدینہ ،کراچی
Comments