اسکول سے واپسی پر ننّھے میاں گھر میں داخل ہوئے تو سلام کئے بغیر ہی سیدھا اپنے کمرے میں چلے گئے، امّی نے اس بات کو محسوس کیا تو ننھے میاں کے پیچھے چلی آئیں۔ کمرے کے دروازے سے دیکھاکہ ننّھے میاں بہت گھبرائے ہوئے ہیں فوراً قریب آکر پوچھا:ننھے میاں! کیا ہوا، کوئی بات ہوگئی ہے کیا ؟
امی!! میں نے شاہد کو نہیں مارا اور میں اب اس سے کوئی بھی بات نہیں کروں گا، ننھے میاں نے جواب دیا۔
آخر ہوا کیا ہے کچھ پتا تو چلے؟ امی نے پوچھا۔
وہ بہت بدتمیز بچّہ ہے، مجھے نہ جانے کیا کیا کہے جا رہا تھا اور جب میں نے اسے پلٹ کر جواب دیا تو وہ رونے لگا، میں فوراً بھاگ کر گھر آگیا، امی! میں سچ کہہ رہا ہوں میں نے اسے مارا نہیں ہے۔ ننّھے میاں کی آواز سے لگ رہا تھا کہ وہ خود روپڑیں گے۔
اچھا اچھا! جب آپ نے اسے مارا ہی نہیں تو گھبرانے کی بھی کوئی بات نہیں ہے۔ امی نے ننّھے میاں کو تسلّی دیتے ہوئے کہا۔
کچھ دیر بعد ڈور بیل بجنے پر امی نے دروازے کے پاس جاکر پوچھا: کون؟
باہر سے ایک خاتون کی غصّہ بھری آواز آئی: جلدی دروازہ کھولئے، میں شاہد کی امی ہوں۔
ننّھے میاں کی امی نے دروازہ کھولا تو وہ اپنے شاہد کے ساتھ گھر میں داخل ہوکر بولنا شروع ہوگئیں: کہاں ہے ننھے میاں؟میں تو اسے بہت اچھا بچّہ سمجھتی تھی، لیکن اس نے تو حد ہی کردی۔
بہن ! آخر ہوا کیا ہے، کچھ بتائیے تو سہی!! ننّھے میاں کی امی نے نرم لہجے میں شاہد کی امی سے پوچھا۔
ہونا کیا ہے! میرے بیٹے شاہد کا رنگ کالا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ کا بیٹا اسے ”کالُو، کالُو“ کہہ کر چھیڑتا رہے، آج شاہد روتے ہوئے گھر واپس آیا ہے۔
بہن آپ بیٹھ جائیے میں ننھے میاں کو بُلاتی ہوں۔
مجھے نہیں بیٹھنا آپ اپنے لاڈلےکو جلدی سے بلائیں۔
ننّھے میاں! فوراً ادھر آئیے، امی نے آواز دی۔ کچھ دیر تک ننّھے میاں کی آمد کے آثار دکھائی نہیں دیئے تو کمرے میں دیکھنے گئیں مگر ننّھے میاں اپنے کمرے میں کہاں! وہ تو شاہد کی امی کو دیکھتے ہی دادی کے کمرے میں جاکر چُھپ گئے تھے۔ امی نے دوبارہ آواز دی تو دادی ننھے میاں کا ہاتھ پکڑ کر باہرلے آئیں۔
شاہد کی امی کی ساری بات سُن کر دادی کہنے لگیں:ننّھے میاں! مجھے آپ سے ایسی حرکت کی امید نہیں تھی۔
مگردادی!شاہد بھی مجھے روزانہ چِڑاتا (Teaseکرتا)ہے، ننّھےمیاں نے اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا۔
ارے!! بچّوں میں یہ گندی عادت کیسے پیدا ہوگئی؟دادی نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔پھر دادی دونوں بچوں کو اپنےساتھ ڈرائنگ روم میں لے آئیں اور سمجھاتے ہوئے بولیں: کسی کے بُرے نام رکھنا لمبے کو لَمبُو، موٹے کو موٹُو اور چھوٹے قد والے کو چھوٹُو یا ٹِھگنا کہہ کر اس کا مذاق اُڑانا بہت بُری بات ہے۔میں آپ دونوں کو ایک سچّی کہانی سناتی ہوں پھر مجھے بتانا کہ آپ دونوں نے اچھا کام کیا ہے یا بُرا؟دادی صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولیں۔اتنے میں شاہد اور ننھے میاں دونوں کی مائیں بھی کمرے میں آ گئی تھیں، سچّی کہانی کا سُن کر وہ بھی شوق سےصوفے پر بیٹھ گئیں۔
نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں ایک شخص نے حضرت بلال رضیَ اللہ عنہ کو کہا:اے کالی عورت کے بیٹے! حضرت بلال نے جب دربار ِ رسالت میں اس کی شکایت کی تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس آدمی کو بُلوایا اورپتا ہے کیا فرمایا؟
دونوں بچوں کے منہ سے ایک ساتھ نکلا: کیا کہا؟
ہمارے نبیصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا: مجھے تَوَقُّع نہیں تھی کہ تمہارے سینوں میں ابھی تک اسلام سے پہلے زمانے کاتکبّر موجود ہوگا۔
اس کے بعد اس شخص نے پتا ہے کیا کِیا؟ننّھے میاں اور شاہد میاں! آپ دونوں اسے غور سے سنو! اس شخص نے اپنا چہرہ زمین پر رکھ دیا اور کہا:بلال! جب تک آپ اپناپاؤں میرے چہرے پر نہیں رکھیں گے میں اس وقت تک ہرگز ہرگز اپنا چہرہ زمین سے نہیں اُٹھاؤں گا۔
آخر کاراس شخص کے بہت ضد کرنے پرحضرت بلالرضیَ اللہ عنہ نے اپنا پاؤں اس شخص کے چہرے پر رکھا۔
(شرح بخاری لابن بطال،ج 1،ص87ملخصاً)
میرے بچّواب بتاؤ! تم دو نوں اچّھا کام کررہے ہو یا بُرا؟
ننّھے میاں فوراً بولے: دادی! واقعی یہ تو بہت بُرا کام تھا، شاہد مجھے معاف کردو میں آئندہ کبھی بھی تمہیں ایسا نہیں کہوں گا۔
شاہد نے اُٹھ کر ننّھے میاں کو گلے لگایا اور کہا : مجھے بھی معاف کردو میں بھی آئندہ تمہیں تنگ نہیں کروں گا۔ دونوں بچّوں کو یوں گلے ملتا دیکھ کر شاہد کی امّی کا غصّہ بھی ختم ہوگیا اور ننّھے میاں کی والدہ اور دادی بھی خوش ہوگئیں۔
٭…ابو عبید عطّاری مدنی
٭…ماہنامہ فیضان مدینہ ،کراچی
Comments