گزشتہ مضمون میں دل کی تین حالتیں اور اس کی باطنی اصلاح پر کلام ہوا اوردل میں نفسانی خواہشات کے دروازوں اور اس کے حل پر گفتگو ہوئی تھی ۔
(3)دل میں شیطان کے داخل ہونےکاتیسرا دروازہ: مکان، کپڑوں اور سامان سے محبت ہے کہ اسی کی آرائش و زیبائش میں لگے رہنا، کبھی کلرچینج توکبھی ماڈل چینج تو کبھی علاقہ چینج ۔ صرف دنیوی اسٹیٹس کو بہتر سے بہتر بنانے میں مگن رہنا۔ چنانچہ فرمانِ خداوندی ہے:( زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِؕ-ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ(۱۴)) ترجمۂ کنز العرفان: لوگوں کے لئے ان کی خواہشات کی محبت کو آراستہ کر دیا گیا یعنی عورتوں اور بیٹوں اور سونے چاندی کے جمع کئے ہوئے ڈھیروں اور نشان لگائے گئے گھوڑوں اور مویشیوں اور کھیتیوں کو (ان کے لئے آراستہ کر دیا گیا۔) یہ سب دنیاوی زندگی کا سازو سامان ہے اور صرف اللہ کے پاس اچھا ٹھکانہ ہے۔ (پ 3، اٰلِ عمرٰن:14) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اورحدیثِ پاک ہے کہ دنیا کی محبت ہر برائی کی بنیاد (جڑ) ہے۔(شعب الایمان،ج 7،ص323،حدیث:10457)
اگر بقدرِ ضرورت مکان اور سامان حاصل کیا جائے تو یہ مذموم نہیں ہے مگر اس کی محبت میں گم رہنا اور ہر وقت اس کی تزئین و آرائش اور ٹپ ٹاپ میں مصروف رہنا ہرگز لائقِ تحسین نہیں ہے۔ مکان،لباس اور دیگر اسباب ِزندگی اگر عمدہ سے عمدہ بنانے کی لگن دل میں رہے تویہ دل کی غفلت کی علامت ضرور ہے اور کثرتِ اسباب و اموال سے دل میں تکبر یا تفاخر یا خود پسندی یا حب ِ جاہ پیدا ہونےكا قوی اندیشہ ہے۔
دنیا کی لذتوں کا معاملہ یہ ہے کہ جتنی ملتی جائیں اتنی ہی طلب بڑھتی جاتی ہے اور اس کی کوئی انتہا نہیں ہے اور جتنی یہ غفلت بڑھے گی اتنی ہی خدا سے دوری میں اضافہ ہوگا۔
اس کا علاج یہ ہےکہ دنیا کی عورتوں، سونے چاندی کے ڈھیروں، سواریوں اوراموال کی کثرت کی بجائے جنت میں ان کی کثرت کا سوچے اور یہاں کا مال آخرت میں بھیج کر یعنی صدقہ کرکے وہاں ذخیروں میں اضافہ کرتا جائے اور مال کی جگہ مولا کریم کی طلب دل میں پید اکرے اور بڑھائے اور دنیاوی اسباب کو اِس نظر سے ضرور دیکھتا رہے کہ یہ مجھے میرے محبوبِِ حقیقی خداوند قدوس کی بارگاہ سے دور کرنے کا ذریعے بن سکتے ہیں لہٰذا میں محتاط رہوں۔ ذہنی طور پر اس انداز میں ہوشیار رہنے سے بہت بچت رہتی ہے۔
(4)شیطان کے داخلے کا چوتھا دروازہ، غصہ ہے: غصے میںعقل ماؤف ہوجاتی ہے اور شیطان آسانی سے حملہ کرلیتاہے کیونکہ غصہ شیطان کا ایسا جال ہے کہ جو اس میں پھنس جائے تو وہ شیطان کے ہاتھوں میں گیند کی طرح کھیلتا ہے۔غصے میں آدمی کے منہ سے کچھ ایسابھی نکل جاتا ہے جس سے دین ودنیا حتی کہ ایمان بھی ضائع ہو جاتا ہے۔ غصے سے ہی اگر قدرت ہو تو ظلم جنم لیتا ہے، اور اگر قدرت نہ ہوتو کینہ بنتا ہےاور اسی سے حسد پیدا ہوتا ہے، اسی سے دشمنی پیدا ہوتی، رشے داری ٹوٹتی، طلاق ہوتی اورقتل و غارت کی نوبت آتی ہے اور ان تمام چیزوں کے بعد زندگی امن و سکون سے خالی اورنفرت و عداوت سے معمور ہوجاتی ہے۔ یونہی غصے کی وجہ سے غلط فیصلے ہوتے ہیں، جبکہ غصہ بھول جانے اورمعاف کرنے سے دلی سکون اور راحت ملتی ہے، دل و دماغ سے بوجھ اتر جاتا ہے اور بندہ خدا کے پسندیدہ لوگوں میں شامل ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴))
ترجمۂ کنز العرفان: اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ نیک لوگوں سے محبت فرماتا ہے۔ (پ4، اٰلِ عمرٰن:134) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
غصہ نہ آئے یا کم آئے تو اس کا عملی علاج یہ ہے کہ جن وجوہات کی وجہ سے انسانی طبیعت میں غصے کا عنصر بڑھتا ہے اسے کم کرے ان اسباب میں ایسے افراد کی صحبت بھی ہے جو لڑتے جھگڑتے اور بات بات پر لوگوں پر غصہ نکالتے ہیں، ان افراد سے کنارہ کشی کی جائے۔ یونہی جب غصہ آجائے تو اسے دور کرنے کے متعدد عملی علاج ہیں: مثلاً ایک یہ کہ جب غصہ آئے تو اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم یا لاحول ولا قوۃ الا باللہ مسلسل پڑھتا رہے۔ دوسرا یہ کہ ٹھنڈے پانی سے وضو کرلے۔ تیسرا یہ ہے کہ کھڑا ہے تو بیٹھ جائے اور بیٹھا ہے تو لیٹ جائے ۔چوتھا یہ کہ فوراً کسی دوسری مصروفیت میں لگ جائے۔ اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ الٹی گنتی گننا شروع کردے ۔ پانچواں یہ کہ خود کو کہنا شروع کردے کہ غصے سے مغلوب ہونے والا کمزور جبکہ غصے پر غالب آنے والا بہادر ہوتا ہے۔ چھٹا طریقہ یہ ہےکہ خود سے کہے کہ جتنی بات پر تم دوسروں پر غصہ کررہے ہو ، اگر اتنی سی بات پر خدا تم پر غضب فرمائے تو تمہارا کیا بنے گا؟ لہٰذا اپنا غصہ ٹھنڈا کر، تاکہ خدا اپنا غضب تجھ سے پھیر لے۔
دل میں شیطان کے داخلے کا ایک اور دروازہ انسانی خیالات کا پاکیزہ نہ ہونا:سوچ کی پاکیزگی بہت ضروری ہے کیونکہ جب خیالات میں گندگی ہو تو یہ دل میں جڑ پکڑ لیتے ہیں اور پھر انسان ان خیالات پر عمل کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس لئے حدیثِ پاک میں ہماری تعلیم کے لئے یہ دعا مروی ہے: اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْاِلُکَ اَنْ تُطَھِّرَ قَلْبِی ترجمہ: اے اللہ!میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو میرا دل پاک کردے۔(معجم اوسط،ج4،ص 354، حدیث:6218) جو بھی خیال آئے اسے شریعت پر پیش کیا جائے اگر شریعت کے مطابق ہو تو اچھا ہےاور اگرخلاف ہوتو برا ہے۔خیالات کی دوقسمیں ہیں، ایک وہ خیالات جو انسان خود اپنے ذہن میں لاتا ہے خواہ وہ تصور مکے مدینے جانے کا ہو یا مَعَاذَ اللہ کسی گناہ کی جگہ جانے یا گناہ کرنے کا اور دوسری قسم کے وہ خیالات ہیں جو خود بخود آتے ہیں خواہ اچھے ہوں یا برے۔ پہلی قسم کے خیالات تو انسان کی قدرت میں ہیں اس میں آسان طریقہ یہ ہے کہ اچھا ہی سوچے اور دوسری قسم کے خیالات جو خود ہی آجائیں ان کا حل یہ ہے کہ اپنے اختیار سے اچھی چیزیں سوچنا شروع کردے یا خدا کی طرف متوجہ ہوجائے۔ اس سے برے خیالات خود ہی چلے جاتے ہیں کیونکہ دماغ ایک وقت میں ایک ہی چیز سوچتا ہے او ردوسرا طریقہ یہ ہے کہ ذکرِ الٰہی میں لگ جائےجیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: (اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓىٕفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَۚ(۲۰۱))
ترجمہ: بے شک پرہیزگاروں کو جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال آتا ہے تو ہوشیار ہوجاتے ہیں پھر اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔(پ9،الاعراف:201) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
خیالات کی پاکیزگی میں نظر کی حفاظت بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ نظر گندی ہوتو خیالات پاکیزہ نہیں ہوسکتے ۔ مذکورہ بالا تمام امور کا خیال کیا جائے تو اِنْ شَآءَ اللہ دلوں کی پاکیزگی نصیب ہوگی اورقلب ِ سلیم اور نفسِ مطمئنہ کی دولت ہاتھ آئے گی۔
يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قُلُوبَنَا عَلَى دِينِكَ ترجمہ:اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ (مسند احمد،ج 6،ص198، حدیث:17647)
اللَّهُمَّ يَا مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ ترجمہ:اے اللہ! اے دلوں کو پلٹنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت پر پلٹ دے۔ (الاسماء والصفات للبیہقی،ج 1،ص371، حدیث:298)
٭…مفتی محمد قاسم عطاری
٭…دارالافتاء اہل سنت عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ ،کراچی
Comments