فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ ترجمہ:دنیا مؤمن کیلئے قید خانہ اور کافر کیلئے جنّت ہے۔(مسلم،ص 1210،حدیث:7417)
اس حدیثِ مُبارَک کا ایک مطلب یہ ہے کہ دنیا میں مؤمن کے لئے مکمل طور پر آزادی نہیں ہے کہ حلال و حرام کی پروا کئے بغیر زندگی بسر کرے بلکہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ و رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین کے مطابق زندگی گزارنے کا پابند ہے اس اعتبار سے وہ احکامِ شرع کی قید میں رہ کر زندگی گزارتا ہے جبکہ کافر اللہ عَزَّوَجَلَّ و رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی اور سرکشی کرتے ہوئے آزاد زندگی گزارتا ہے۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہاں قیدخانہ اور جنّت کو آخرت کے مقابلے میں بیان کیا گیا ہے یعنی جنّت میں مؤمن کیلئے جتنی نعمتیں ہیں اس کے مقابلے میں دنیا ایک قید کی طرح ہے اگرچہ یہاں بعض مؤمن کتنی ہی راحت کے ساتھ کیوں نہ ہوں لیکن یہ راحتیں جنّت کے مقابلے میں کچھ نہیں۔ اسی طرح کافر کیلئے جو دوزخ کے عذاب اور سختیاں ہیں اس کے مقابلے میں دنیاوی مشقتیں، تکلیفیں کچھ بھی نہیں لہٰذا وہ کفّار جو دنیا میں تکالیف و مشقتوں کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں مگر آخرت کے عذاب کے سامنے یہ تکالیف بھی ان کے لئے گویا کہ جنّت (یعنی باغ) ہیں۔
شارح مسلم امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی علیہ رحمۃ اللہ القَوی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:یعنی ہر مؤمن قید خانے میں ہے اور دنیا میں اسے حرام اور ناپسندیدہ خواہشات سے روک کر اطاعت و فرمانبرداری کا پابند کیا گیا ہے جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو راحت و سکون میں آجاتا ہے اور نقصان سے محفوظ اور ہمیشہ رہنے والی اُن نعمتوں کی طرف لوٹ جاتا ہے جواللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس کے لئے تیار کر رکھی ہیں اور کافر لئے صرف دُنیاوی نعمتیں اور آسائشیں ہیں اگرچہ (بعض کیلئے) وہ تھوڑی اور بدمزہ ہوں لہٰذا جب وہ مرتا ہے تو سخت اور ہمیشہ رہنے والے عذاب کی طرف لوٹ جاتا ہے۔( شرح مسلم للنووی،ج9،ص93، جز:18)
مرقاۃُ المفاتیح میں ہے: مؤمن کو چاہئے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے ملنے والی آزمائشوں پر صبر کرتا رہے اور جو اس کی تقدیر میں لکھا ہے اس پر راضی رہے حدیثِ قُدْسی میں ہے کہ جو میرے لکھے ہوئے پر راضی نہ ہو اور مصیبتوں پر صابر نہ ہو تو اُسے چاہئے کہ میرے علاوہ رَبّ تلاش کرلے۔(مرقاۃ المفاتیح ، ج 4،ص44،تحت الحدیث:1569)
حاشیۃ السندی علی سنن ابن ماجہ میں ہے:(دنیا) مؤمن کے لئے قید خانہ ہے کہ اگرچہ وہ نعمتوں میں زندگی گزارے کیونکہ جنّت ان نعمتوں سے بہتر ہے اور (دنیا) کافر کے لئے جنّت ہے اگرچہ وہ تکالیف بھری زندگی گزارے کیونکہ آگ کا عذاب اس سے بھی بُرا ہے۔(حاشیۃ السندی علی ابن ماجہ، ج 4،ص428، تحت الحدیث: 4113)
حکیمُ الامت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنَّان مِراٰۃُ المَناجیح میں لکھتے ہیں:یعنی مؤمن دنیا میں کتنا ہی آرام میں ہو مگر اُس کے لئے آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں دنیا جیل خانہ ہے جس میں وہ دل نہیں لگاتا۔ جیل اگرچہ اے کلاس ہو پھر بھی جیل ہے اور کافر خواہ کتنے ہی تکالیف میں ہو مگر آخرت کے عذاب کے مقابل اس کے لئے دنیا باغ اور جنّت ہے وہ یہاں دل لگا کر رہتا ہے لہٰذا حدیث شریف پر یہ اعتراض نہیں کہ بعض مؤمن دنیا میں آرام سے رہتے ہیں اور بعض کافر تکلیف میں۔ ایک روایت میں ہے کہ حضورِ انور (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے فرمایا: اے ابو ذر! دنیا مؤمن کی جیل ہے اور قبر اس کے چھٹکارے کی جگہ، جنّت اس کے رہنے کا مقام ہے اور دنیا کافر کے لئے جنّت ہے، موت اس کی پکڑ کا دن اور دوزخ اس کا ٹھکانا۔(مراٰۃ المناجیح ،ج 7،ص 4)
Comments