گنج شکر(حضرت سیدنا با با  فرید  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ )

بَرِّعظیم پاک و ہند میں جن مُبارَک ہستیوں نے نیکی کی دعوت عام کی ان میں سے ایک آسمانِ ولایت کے آفتاب سلسلۂ عالیہ چشتیہ کے عظیم پیشوا حضرت بابا فریدُ الدّین مسعود گنج شکر فاروقی حنفی چشتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ذاتِ گرامی بھی ہے، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ولادت569ھ یا 571ھ مطابق 1175ء میں مدینۃُالاولیا ملتان کے قصبہ”کَھتوال“([1])میں ہوئی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے والدِ ماجد حضرت شیخ جمالُ الدّین سلیمان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ زبردست عالمِ دین اور والدہ ماجدہ حضرت بی بی قُرسم خاتون رحمۃ اللہ تعالٰی علیہا نیک پرہیزگار خاتون تھیں۔ والدِ گرامی کے وصال کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی تربیت والدہ ماجدہ نے فرمائی۔([2])تعلیم و تربیت: آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ حفظِ قراٰن اور ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدینۃُ الاولیا ملتان تشریف لے گئے اور قراٰن و حدیث، فقہ و کلام اور دیگر علومِ مُرَوَّجہ پر عبور حاصل کیا۔([3]) بیعت و خلافت: آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ دورانِ تعلیم ہی حضرت قُطبُ الدّین بختیار کاکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے بیعت ہوئے اور تحصیلِ علمِ دین کے بعد خلافت سے نوازے گئے۔([4])گنج شکر کی ایک وجۂ تسمیہ: آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو ایک مرتبہ 80فاقے ہوچکے تھے۔ نفس بھوکا تھا ”اَلْجُوع اَلْجُوع(ہائے بھوک، ہائے بھوک) پکار رہا تھا، اُس کے بہلانے کے لئے کچھ سنگریزے (یعنی کنکر) اٹھا کر منہ میں ڈالے۔ ڈالتے ہی شکر ہوگئے، جو کنکر منہ میں ڈالتے شکر ہوجاتا اِسی وجہ سے آپ ” گنج شکر“ مشہور ہیں۔([5])دینی خدمات: آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی نیکی کی دعوت سے ہزاروں غیر مسلموں کو دولتِ اسلام نصیب ہوئی، گمراہ راہِ راست پر آئے اور سینکڑوں نے ولایت کے مَدارِج (یعنی درجے)طے کئے۔([6])شانِ بےنیازی: ایک مرتبہ خاندانِ غُلاماں کے سلطان ناصرُ الدّىن محمود نے اپنے سپہ سالار(Chief of Command) کےذریعےآپرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی بارگاہ میں چار گاؤں کا ملکیت نامہ پیش کیا تو آپ نے یہ تحریری  جواب دے کر اپنی شانِ بے نیازی کا اظہار فرمایا:”بادشاہ ہمیں گاؤں دے گا تو احسان جتائے گا جبکہ رازقِ حقیقی بغیر اِحْسان جَتائے ہمیں دن رات رِزق عطا فرماتا ہے۔([7])زبان میں تاثیر: ایک شخص بارگاہِ گنجِ شکر میں حاضر ہوکر یوں عرض گزار ہوا:”میری کئی لڑکیاں ہیں جن کی شادی کے اخراجات اٹھانا میرے بس میں نہیں۔“ یہ سُن کر آپ نے مٹی کا ایک ڈھیلا اُٹھایا، سورۂ اخلاص پڑھ کردم کیا جس سے وہ سونا (Gold)بن گیا، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اُسے سونا عطا کیا اور ارشاد فرمایا: اسے لے جاؤ اور اپنی لڑکیوں کی شادی کرو۔ آدمی کے دل میں حرص پیدا ہوئی کہ سونا بنانے کا وظیفہ ہاتھ آگیا ہے، گھر پہنچ کر بہت ساری مٹی  جمع کی اور سورۂ اخلاص پڑھ کر دم کیا مگر جب وہ پڑھتے پڑھتے تھک گیا اور کوئی نتیجہ نہ نکلا تو اپنے قریبی دوست سے تمام ماجرا بیان کیا، دوست دانا اور سمجھدار تھا کہنے لگا: بھائی! سورۂ اخلاص تو وہی ہے مگر بابا فرید کی زبان کہاں سے لاؤ گے؟([8]) وصال و مدفن: آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا وصال، 5محرمُ الحرام 664ھ مطابق 17 اکتوبر 1265ء کو ہوا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا مزارِ پُراَنوار پنجاب (پاکستان) کے شہر پاکپتن شریف میں زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔([9])

حضرت بابا فرید رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی سیرت کے بارے میں مزید جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ”فیضانِ بابا فرید گنجِ شکر“ پڑھئے۔



[1] ...اس کا موجودہ نام کوٹھے وال ہے جو بُدھلہ سَنت روڈ پر واقع ہے۔

[2] ... سیرالاولیاء مترجم،ص159، انوارالفرید،ص42،48، حیاتِ گنج شکر،ص253،258 ماخوذاً

[3] ... خزینۃ الاولیاء،ج 2،ص110، چشتی خانقاہیں اور سربراہان برصغیر،ص50،محبوب الٰہی، ص53

[4] ... خزینۃ الاصفیاء،ج 2،ص110،111

[5] ... ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص482

[6] ... انوار الفرید، ص115

[7] ... شانِ اولیا،ص 379 ملخصاً

[8] ... انوار الفرید، ص 300 ملخصاً

[9] ... فیضان بابا فرید گنج شکر،ص96تا 98


Share