سُسرالی رشتہ اللہ تعالٰی کی بڑی نعمت ہے جس کے ذریعے مختلف خاندان باہم ملتے ہیں اور معاشرہ مَربوط(جُڑا)رہتاہے، ساس، بہو اور داماد کی طرح سُسَر بھی اس رشتے کا اَہَم حصّہ ہے۔ سُسر گھر کا ایک اہم فرد ہونے کے ساتھ ساتھ عام طور پر گھر کا سربراہ بھی ہوتاہے۔ اسلامی تعلیمات و اَخلاقیات کی روشنی میں ایک سُسر کو کیسا ہونا چاہئے؟اس کے متعلق چند مدنی پھول مُلاحظہ کیجئے:(1)بہو اور داماد سُسر کے لئے بیٹے اور بیٹی کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لئے ان کے ساتھ اپنی اولاد کی طرح شفقت و اُلفت رکھے۔(2)بیٹے کا نکاح کر کے بہو گھر لانے یا بیٹی کو بیاہ کر اس کے گھر بھیج دینے کے بعد سُسر کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہوجاتیں، بلکہ ان کا گھر آباد رکھوانےمیں اس کا کردار اَہَم ہوتاہے، چنانچہ اگر کبھی بیٹی اور داماد یا بیٹے اور بہو میں کسی بات پر تنازَعہ (رنجِش۔ جھگڑا) ہوجائے، تو سُسر کو چاہئے کہ ان کے تنازعہ کو بڑھانے کےبجائے، ان میں صُلْح کروانے کی کوشش کرے۔ اس مُعاملے میں حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا عمل پیشِ نظر رکھے چنانچہ مروی ہے کہ ”رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت فاطِمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر تشریف لائے، تو حضرت علی کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجہَہُ الْکریم کو گھر میں نہ پایا، فرمایا: تمہارے چچا کا بیٹا کہاں ہے؟ عرض کیا: میرے اور ان کے درمیان کچھ چَپقَلَش ہے، وہ مجھ سے رُوٹھ کر چلے گئے اور میرے ہاں قیام نہ فرمایا، رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کسی سے فرمایا کہ دیکھو علی کہاں ہیں؟ وہ گئے (اور آکر) بتایا کہ وہ مسجد میں سو رہے ہیں، رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم (مسجد میں) تشریف لے گئے، حضرت علی کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجہَہُ الْکریم لیٹے ہوئے تھے، ان کی چادر ان کے پَہلو سے گرگئی تھی اور ان کے جسم پر مٹی لگ گئی تھی،رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے مبارک ہاتھوں سے مٹی جھاڑتے ہوئے فرمانے لگے:” قُمْ اَبَا تُرَابٍ قُمْ اَبَا تُرَابٍ اٹھو! اے ابو تُراب، اٹھو! اے ابوتُراب (ابوتُراب یعنی مٹّی والے)۔“(بخاری،ج 1،ص169، حدیث: 441) نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس مبارک عمل سے ان سُسر حضرات کو درس حاصل کرنا چاہئے جو ذرا سی بات پر بہو کو گھر سے نکالنے کا مطالبہ کردیتے ہیں یا داماد کی ذرا سی کوتاہی پر بیٹیوں کو اپنے گھر لے آتے ہیں۔ (3)بہو کسی معاملے میں کوئی غلَطی،کوتاہی کربیٹھے تو بیٹے کو شکایتیں کرنے یا خود ڈانٹنے اور جھاڑنے سے پرہیزکرے بلکہ معاملے کی نوعیَّت کے مطابق اصلاح کی کوشش کرے۔ (4)بہو کے سامنے اس کی ساس یعنی اپنی زوجہ سے لڑنا جھگڑنا بہو کی نظر میں ساس اور سُسر کی عزّت گرا دیتا ہے، اسی طرح اپنے بیٹوں یعنی بہو کے شوہر، دیور، جیٹھ کو اس کے سامنے ڈانٹنا بھی نہایت ہی نامناسب ہے۔ممکن ہے کہ سُسر کا رویّہ دیکھتے ہوئے بہو بھی ساس اور شوہر پر بھاری ہونے کی کوشش کرے اور یوں گھر کا امن و سکون داؤ پر لگ جائے۔ (5)شیخِ طریقت امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ سُسر اور بہو کے پردے کےمتعلق فرماتے ہیں کہ ” حُرمتِ مُصاہَرت([1])کی وجہ سے پردہ نہیں۔ اگر پردہ کرے تو حَرَج بھی نہیں بلکہ بحالتِ جوانی يا اِحتِمالِ فتنہ ( یعنی فتنے کے احتمال) کی صورت میں جیسا کہ اِس دَور میں پردہ کرنے ہی میں عافیّت ہے کیوں کہ حالات انتِہائی ناگُفْتہ بِہ(شرمناک) ہیں۔ سُسر اور بَہُو کے”مسائل“سننے میں آتے رہتے ہیں۔ (پردے کے بارے میں سوال جواب، ص47)لہٰذا سُسر کو چاہئے کہ جس طرح بیٹی کو ہر کام کہہ لیتا تھا، بہو کے معاملے میں احتیاط برتے۔
Comments