سونے کو سونے کے بدلے بیچنا کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم سونے کے زیور بناتے ہیں اور دکانداروں کو بیچتے ہیں اس میں ہمارا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ہم جب سونا بیچتے ہیں تو اس کے بدلے سونا ہی لیتے ہیں مثال کے طور پراگر دس تولے سونا ہم نے دکاندار کو بیچاتو اس کے بدلے میں دس تولہ سونا ہی لیتے ہیں لیکن دکاندار ایک تولہ سونا نَقْد دیتا ہے اور بقیہ سونا ادھار کر لیتا ہے ۔ اس طرح عَقْد کرنا جائز ہے یا نہیں؟اس کی تفصیل یہ ہے دوکاندار کارخانہ والے سے زیورات خریدتا ہے وہ چوبیس کیرٹ (Karat)کے نہیں ہوتے لیکن ان کے بدلہ جو سونا وہ حاصل کرتا ہےوہ چوبیس کیرٹ کا ہوتا ہے۔
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
یہ عقد صرف ناجائزہی نہیں بلکہ خالص سُودی معاملہ ہے ایسا کرنا حرام اور جو آمدنی حاصل ہو وہ سود اور مالِ حرام ہے۔ حدیثِ پاک میں فرمایا گیا کہ جب سونا بیچو تو ہاتھوں ہاتھ اور برابر برابر بیچولیکن آپ کا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ سونے کو سونے کے بدلے میں ادھار بیچا جا رہا ہے، لہٰذا خاص سودی معاملہ ہوا۔حدیثِ پاک میں ہے’’عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الخُدْرِیِّ، قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم: اَلذَّھَبُ بِالذَّھَبِ، وَالْفِضَّۃُ بِالْفِضَّۃِ، وَالْبُرُّبِالْبُرِّ، وَالشَّعِیْرُ بِالشَّعِیْرِ، وَالتَّمْرُبِالتَّمْرِِ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ، مَثَلاً بِمَثَلٍ، یَداً بِیَدٍ، فَمَنْ زَادَ، اَوِاسْتَزَادَ، فَقَدْ اَرْبیٰ، اَلآخِذُوَالْمُعْطِیْ فِیْہِ سَوَاءٌ‘‘
ترجمہ:حضرت سیّدنا ابو سعید خدریرضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جَو جَو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے، اور نمک نمک کے بدلے برابر برابر اور ہاتھوں ہاتھ بیچا جائے، پس جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سودی معاملہ کیا،اس معاملے میں لینے والا اور دینے والا دونوں برابر ہیں۔(مسلم،ص659، حدیث:4064)
صدرُ الشّریعہ بدرُ الطّریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی لکھتے ہیں:چاندی کی چاندی سے یا سونے کی سونے سے بیع ہوئی یعنی دونوں طرف ایک ہی جنس ہے تو شرط یہ ہے کہ دونوں وَزْن میں برابر ہوں اور اُسی مجلس میں دست بَدَست (ہاتھوں ہاتھ) قبضہ ہویعنی ہر ایک دوسرے کی چیز اپنے فعل سے قبضہ میں لائے، اگر عاقدین(سودا کرنے والوں) نے ہاتھ سے قبضہ نہیں کیا بلکہ فرض کرو عقد کے بعد وہاں اپنی چیز رکھ دی اور اُس کی چیز لے کر چلا آیا،یہ کافی نہیں ہے اور اس طرح کرنے سے بیع ناجائز ہوگئی بلکہ سود ہوا ۔(بہار شریعت،ج2،ص821)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
افیون کی تجارت کرنا کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اَفْیُون کی تجارت کرنا کیسا؟یہ بہت ساری دواؤں میں بھی استعمال ہوتی ہے۔
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ملکی قوانین اگر افیون کو بیچنا مطلقاً جرم قرار دیتے ہوں تو شرعاً بھی ایسی تجارت سے بچنا واجب ہوگا،البتہ چونکہ افیون خود کوئی ناپاک چیز نہیں ہے بلکہ اس کا کثیر استعمال نشہ لاتا ہے قلیل نہیں اور دواؤں میں بھی اس کا استعمال ہوتا رہا ہے، اس بِنا پر افیون کی تجارت فی نفسہٖ حرام کام نہیں لیکن نشے والوں کے ہاتھ بیچنا ناجائز ہے اور دوا بنانے والوں کو بیچنا جائز ہوگا۔
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن سے سوال ہوا کہ ”افیون کی تجارت اور اس کی دکان کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ آپ نے جواب ارشاد فرمایا: ”افیون کی تجارت دواکے لئے جائز اور افیونی کے ہاتھ بیچنا ناجائزہے۔“(فتاویٰ رضویہ ،ج23،ص601)
اسی طرح فتاویٰ امجدیہ میں ہے:افیون کا کھاناناجائز،مگر جبکہ دوا میں اتنی قلیل ملائی گئی کہ اس دوا کے کھانےسے حواس پر اثر نہ ہو تو جائز ہے۔ لہٰذا اس کی بیع و شِراء(خرید و فروخت) جائز ہے، البتہ اس کی بیع (فروخت) ایسے شخص سے کرنا جو اسے ناجائز طور پر کھاتا ہوممنوع ہےکہ مَعْصِیَت(گناہ) پر اِعانت (مدد کرنا) ہے۔“(فتاویٰ امجدیہ،ج2،ص182)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
آن لائن (Online)خرید و فروخت سے متعلق اہم مسئلہ
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلےکےبارےمیں کہ اَشْیاء کی تَشْہِیر(Advertisement) کرتے وقت پہلے انٹرنیٹ پر مصنوعات (Products)کی تصاویر لگائی جاتی ہیں پھر ان کو دیکھ کرپسند آنے کی صورت میں خریدو فروخت کی جاتی ہے اور اس کے بعد گاہک آن لائن(Online) رقم ادا کردیتا ہے۔بسا اوقات بیچی گئی چیز سودا ہونے تک پراڈکٹ (Product) تشہیر کرنے والے کی ملکیت میں نہیں ہوتی البتہ سودا ہونے کے بعد وہ کسی اور سے خرید کراس کو بھجوا دیتا ہے جس نے پہلے سے رقم دے دی تھی تواس کا کیا حکم ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر واقعی ایسا ہے کہ سودا کرتے وقت بیچنے والے کی ملکیت میں وہ چیز نہیں ہوتی تو ایسا سودا کرنا جائز نہیں۔ درمختار میں ہے:’’کُلُّ مَا اَوْرَثَ خَلَلاً فِی رُکْنِ الْبَیْعِ فَھُوَ مُبْطِلٌ‘‘یعنی ہر وہ چیز جو بیع کے رکن میں خلل پیدا کرے وہ بیع کو باطل کرنے والی ہے۔‘‘(ردالمحتار علی الدرالمختار ،ج7،ص233)
علامہ شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِی بیع کی شرائط ذکر کرتے ہوئے ردالمحتار میں ارشاد فرما تے ہیں:’’کَوْنُہٗ مَوْجُوْداً مَالاً مُتَقَوِّماً مَمْلُوْکاً فِی نَفْسِہٖ،وَکَوْنُ الْمِلْکِ لِلْبَائِعِ فِیْمَا یَبِیْعُہٗ لِنَفْسِہٖ‘‘
یعنی مَبِیْع( یعنی بیچی جانے والی چیز) کا موجود ہونا،مالِ متقوم([1]) ہونا،اپنی ملکیت میں ہونا اورجس کو بائع اپنے لئے بیچ رہا ہے تو وہ اس کی مِلک میں ہونا ضروری ہے۔‘‘(ردالمحتار علی الدرالمختار،ج 7،ص13)
مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی بہارِ شریعت میں ارشاد فرماتے ہیں:”بیعِ باطل کا حکم یہ ہے کہ مبیع( یعنی بیچی جانے والی چیز) پر اگر مُشْتَری (خریدار)کا قبضہ بھی ہوجائے جب بھی مشتری (خریدار)اس کا مالک نہیں ہوگا اور مشتری کا وہ قبضہ قبضۂ امانت قرار پائے گا۔“(بہار شریعت،ج2،ص701)
مذکورہ سودے پر مزید بھی تحفظات ہیں لیکن چونکہ سوال میل کے ذریعے وصول ہوا ہے اس لئے بقیہ اُمور کا تَعَیُّن نہ ہونے پر کلام کرنا ممکن نہیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Comments