میدانِ کربلا میں بے مثال قربانیاں پیش کرکے امامِ عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ اور آپ کے رُفَقَا نے اسلام کی بنیادوں کو مضبوط ومستحکم کیا، حسینی قافلے کے شُرَکاء میں بنوہاشم کے سولہ، سترہ یا انیس افراد تھے۔(سیر اعلام النبلاء،ج4،ص416تا426-الاستیعاب ،ج1،ص445ملخصاً) سوانح کربلا، صفحہ 128 پر ہے: امام عالی مقام رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ اہلِ بیت ودیگر کل82نُفُوس تھے جبکہ ایک قول کے مطابق یہ کاروانِ عشق 91 افراد پر مشتمل تھا جس میں 19اہلِ بیت اور 72دیگر جاں نثار تھے۔(تاریخ کربلا ،ص269)حکیمُ الامت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: کربلا میں حسینی قافلہ بہتّر(72) آدمیوں پرمشتمل تھا۔(مراٰۃ المناجیح،ج3،ص387)
حسینی قافلے کے شُرَکا امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بے پناہ محبت کرتے اور اپنا تَن مَن دَھن آپ پر لٹانے کا بے مثال جذبہ رکھتے تھے اور بڑے بہادر وشجاع تھے۔ امام زین العابدین علی اَوْسَط رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دورانِ سفر عرض کی: بابا جان! جب ہم حق پر ہیں تو ہمیں موت کی کوئی پروا نہیں۔ (تاریخ الطبری،ج 9،ص216 ماخوذاً) اسی طرح ایک جانثار نے عرض کی: اگر دنیا ہمارے لئے باقی رہے اور ہم اِس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں اور پھر آپ کی مددو نصرت کے سبب ہمیں دنیا چھوڑنی پڑے تو ہم آپ ہی کا ساتھ دیں گے۔(تاریخ الطبری،ج9،ص213) حسینی قافلے کے بعض شُرَکا توبہت مشہورہیں مثلاًعلی اکبر،علی اصغر، عباس، حُر، قاسم، عَون، محمد رِضْوَانُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنمگر بعض زیادہ شہرت نہیں رکھتے، جیسےحضرت سیدنا عثمان بن علی المرتضیٰ، ابوبکر بن امام حسن، عُمَر بن امام حسن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم۔ حضرتِ عثمان بن علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے امام عالی مقام رضی اللہ تعالٰی عنہ کے آگے آگے رہ کر خود کو اُن کی ڈھال بنائے رکھا، یزید اَصْبَحِی نے آپ کو تیر مار کر زخمی کیا پھر آپ کا مبارک سَر تَن سے جدا کیا اور اپنے لیڈر سے ذلیل دنیا کا انعام لینے پہنچ گیا۔(الاخبار الطوال،ص379 ماخوذاً) شِمْر بن ذی الجَوْشَن نے کربلا میں حسینی لشکر کے بعض جاں نثاروں کو اَمان دینے کی بات کی تو انہوں نے یہ کہہ کر اَمان کو ٹھکرا دیا کہ تجھ پر اور تیری اَمان پر اللّٰہ تعالٰی کی لعنت ہو کہ تو ہمیں اَمان دیتا ہے اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بیٹے (امام حسین) کے لئے کوئی اَمان نہیں۔(تاریخ الطبری، ج9،ص224) حضرت ابوبکر بن حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کربلا میں شہید ہوئے جو عبداللہ بن عقبہ غَنَوِی کے تیر کا نشانہ بنے۔ (الاخبار الطوال، ص379) قیدی بنائے جانے والے بچوں میں ایک چار سال کے شہزادے حضرتعُمَر بن حسن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تھے۔ (الاخبار الطوال، ص380) حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عُمَر نامی دو شہزادے تھے ایک نے کربلا میں شہادت پائی اور دوسرے قید ہوئے۔(سوانح کربلا، ص126تا127) خاندانِ علی میں عام طور پر ابوبکر، عُمَر، عثمان اور عائشہ نام رکھے جاتے تھے۔ جن پانچ بیٹوں سے مولا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم کی اولاد چلی اُن میں سے ایک کا نام عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ تھا،جن کا 85 برس کی عمر میں مقامِ یَنْبُع میں وصال ہوا جبکہ ایک بیٹے حضرت سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ تھےجنہوں نے کربلا میں شہادت پائی۔(الکامل فی التاریخ،ج 3،ص262تا263)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!مذکورہ بالا مضمون سے اہلِ بیتِ اَ طْہار کی صحابۂ کرام سے مَحبَّت کا دَرْس بھی ملتا ہے۔ یہ خلفائے راشدین سے محبت ہی تھی کہ حسنین کریمین رضی اللہ تعالٰی عنہما نے اپنی اولاد کے نام ان کے نام پر رکھے، اسی طرح حضرت سیّدنا امام زین العابدین علی اَوْسَط رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دوبیٹوں کے نام عُمَر اور عثمان تھے، امام جعفر صادق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ایک شہزادی عائشہ نام کی تھیں، امام موسیٰ کاظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے تین بچوں کے اسمائے گرامی عُمَر، ابوبکر اور عائشہ تھے اور یوں ہی امام علی رضا رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ایک صاحبزادی کا نام عائشہ تھا۔(طبقات الکبریٰ،ج5،ص163، سیراعلام النبلاء،ج8،ص251، تہذیب الکمال،ج7،ص403 وغیرہا)
Comments