مہمانوں کی عزّت و تکریم اور خاطرتواضع اسلامی معاشرے کی اعلیٰ تہذیب اور بلندیِ اَخلاق کی روشن علامت ہے۔ اسلام نے مہمان نوازی کی بہت ترغیب دلائی ہے۔ تاجدارِ کائنات صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم خود مہمانوں کی خاطرداری فرماتے تھےاور گھر میں کچھ نہ ہوتا تو اس کے لئے قَرْض لے لینا بھی ثابت ہے چنانچہ حضرت سیّدناابورافع رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے: ایک بار بارگاہِ رسالت میں ایک مہمان حاضر ہوا، آپ علیہ الصَّلٰوۃُ والسَّلام نے مجھے ایک یہودی سے اُدھار غلّہ لینے کیلئے بھیجا مگر یہودی نے رَہْن کے بغیر آٹا نہ دیا تو آپ نے اپنی زِرَہ گِروی (Mortgage) رکھ کر ادھار غلّہ لیا۔ ( مسند البزار،ج 9،ص315، حدیث: 3863ملخصاً) 2 فرامینِ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم (1) جو مہمان نواز نہیں اس میں کوئی بھلائی نہیں۔ (مسنداحمد،ج 6،ص142، حديث:17424) (2)جو اللہ اور قِیامت پر ایمان رکھتا ہے اُسے چاہئے کہ مہمان کا احترام کرے۔ (بخاری،ج4،ص105، حدیث:6018) مہمان نوازی کے فوائدمہمان نوازی سے مہمان کے دل میں میزبان کی عزّت اور محبّت بڑھتی ہے، آپس کے تعلّقات مضبوط ہوتے ہیں، رَنجِشیں دور ہوتی ہیں، ربّ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، رزق میں برکت ہوتی ہے، بندۂ مؤمن کے دل میں خوشی داخل کرکے میزبان کو ثواب کمانے کے مواقع میسّر آتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا نصیب ہوتی ہے۔ مہمان نوازی اور ہمارا معاشرہ افسوس کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں مہمان نوازی کی قدریں دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ گھر میں بطورِ مہمان قیام زَحمت سمجھا جانے لگا ہے اور ایسے مہمانوں کے لئے گھروں کے دستر خوان سُکَڑ گئے ہیں۔ ایک وہ دور تھا کہ جب لوگ مہمان کی آمد کو باعثِ برکت سمجھتے اور مہمان نوازی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے بے تاب نظر آتے تھے جبکہ آج کے دور میں مہمان کو وبالِ جان سمجھ کر مہمان نوازی سے دامن چھڑاتے ہیں۔ اگر کسی کی مہمان نوازی کرتے بھی ہیں تو اسی کی جس سے دُنْیَوی مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ حالانکہ مہمان نوازی بہت بڑی سعادت اور باعثِ فضیلت عمل ہے۔ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:جس نے نماز قائم کی، زکوۃ ادا کی، (فرض)حج کیا، رمضان کے روزے رکھے اور مہمان نوازی کی وہ جنت میں داخل ہوگا۔(معجمِ کبیر،ج 12،ص136،حدیث:12692) مہمان نوازی کیسے کریں؟ ”رویّہ کی درستی“ مہمان نوازی کی بنیادی شرط ہے۔ کوفْت کا اظہار، طنز کے تیروں کی برسات اورغیر ضروری سوالات کی بوچھاڑ کئی دُنیوی و اُخروی فوائد سے محروم کر سکتی ہے۔ لہٰذا مہمان کی آمد پر اس کے مقام و مرتبے کالحاظ رکھتے ہوئے نہایت خوش دلی، وسعتِ قلبی اور گرم جوشی سے استقبال کیجئے، اپنی حیثیت اور مہمان کی طبیعت کے موافق کھانے پینےاور رہنے کا اہتمام کیجئے، شرعی احتیاطوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی دلجوئی اور مناسب گفتگو کیجئے، واپسی پر حسبِ اِستِطاعَت اُسے تحفہ سے نوازئیے اور دروازے تک رخصت کرنے جائیے کہ یہ سب مہمان کے اکرام میں داخل ہے۔ یقیناً اسلام کی روشن تعلیمات کے مطابق اگر ہم مہمانوں کی خلوصِ دل سے خدمت کرنے لگیں تو خاندانی جھگڑوں اور ناچاقیوں سمیت کئی معاشرتی ناسُور (یعنی برائیاں) اپنی موت آپ مر جائیں گے۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*۔۔۔شعبہ فیضان صحابہ واہلِ بیت، المدینۃ العلمیہ باب المدینہ کراچی
Comments