حضرت سیدتنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

جن سعادت مَند خواتین نے رحمتِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دودھ پلانے کا شرف حاصل کیا، ان میں ایک مبارک نام حضرت سیّدتنا حَلیمہ سَعْدِیہ بنت عبد اللہ بن حارِث رضی اللہ تعالٰی عنہا  کا بھی ہے، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا تعلق قبیلۂ بنی سعد سے ہے، آپ شرفِ اسلام و صحابیت سے مشرف ہوئیں، آپ کے شوہر کا نام حضرت حارِث رضی اللہ تعالٰی عنہ تھا، آپ بھی صاحبِ ایمان اور حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبتِ بابرکت سے فیض پانے والے تھے نیز آپ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں بھی حاضرہوئے۔(فتاویٰ رضویہ،ج30،ص293 ملخصاً)

حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا زمانۂ رضاعت حضرت سیّدتنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا رسول کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کواپنے ساتھ لے گئیں اور اپنے قبیلہ میں آپ کو دودھ پلاتی رہیں اور انہیں کے پاس آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بچپن کے ابتدائی سال  گزرے۔ (مدارج النبوۃ، ج2،ص18ملخصاً)

اولاد حضرت سیّدتنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی اولاد بھی مسلمان ہوگئی تھی، آپ کے صاحبزادے کا نام عبداللہ بن حارث تھا جو کہ سَرورِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رضاعی بھائی تھے اور دو صاحبزادیاں انیسہ بنتِ حارث اور جُدامہ بنتِ حارث تھیں، جُدامہ بنتِ حارث ہی شَیما کے نام سے مشہور ہیں۔ (طبقات ابن سعد،ج 1،ص89) حضرت شیما رحمتِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بڑی رضاعی بہن تھیں اور آپ کو گود میں کھلاتی اور لوریاں دیتی تھیں۔(مراٰۃ المناجیح،ج8،ص20)

برکاتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب سے رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت سیّدتنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس آئے، حضرت حلیمہ کے مویشی کثرت سے بڑھنے لگے، آپ کا مقام و مرتبہ بلند ہوگیا، خیر و برکت اور کامیابیاں ملتی رہیں۔(مواہب لدنیہ،ج1،ص80ملتقطاً)

نبیِّ کریم  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آپ سے محبت جب حضرتِ حلیمہ حضور انور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کا ادب و احترام فرماتے اور محبت سے پیش آتے۔ چنانچہ ایک مرتبہ غَزوۂ حُنین کے موقع پر جب حضرت سیّدتنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا محبوبِِ خدا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملنے آئیں تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کے لئے اپنی چادر بچھائی۔

(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،ج 4،ص374)

ایک مرتبہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آئیں اور قحط سالی کا بتایا تو نبیِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کہنے پر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضرت حلیمہ کو 1اونٹ اور 40 بکریاں دیں۔(الحدائق لابن جوزی،ج1،ص169)

مدفن شریف آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو جنّۃ البقیع شریف میں دفن کیا گیا۔(جنتی زیور، ص 512 مفہوماً)

قبر پر سبزہ علّامہ عبدالمصطفےٰ اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: جب میں حضرت بی بی حلیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی قبرِ انور کے سامنے کھڑا ہوا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جنّتُ البقیع کی کسی قبر پر کوئی گھاس اور سبزہ نہیں لیکن حضرت بی بی حلیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی قبر شَریف کو دیکھا کہ بہت ہی ہری اور شاداب گھاسوں سے پوری قبر چُھپی ہوئی ہے۔(جنتی زیور، ص512)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*۔۔۔شعبہ بیاناتِ دعوتِ اسلامی، المدینۃ العلمیہ، باب  المدینہ کراچی


Share

حضرت سیدتنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

دھاگے یا اُون کی چُٹیا لگانا

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل عورتیں بالوں میں دھاگے وغیرہ کی چُٹیا لگاتی ہیں یہ جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

عورت کا دھاگوں یا اُون سے بنی ہوئی چُٹیا اپنے بالوں میں لگانا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ اپنے یا کسی اور انسان کے بالوں کی چُٹیا لگانا، ناجائز و حرام ہے، حدیثِ پاک میں انسانی بال لگانے اور لگوانے والی دونوں عورتوں پر لعنت آئی ہے، لہٰذا اس سے اِجتِناب کیا جائے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم

مُجِیْب                                                                                                                                                                                                             مُصَدِّق

ابو محمد محمدسرفراز اختر العطاری     عبدہ المذنب محمد فضیل رضا العطاری

حالتِ حیض میں سعی کا حکم

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ عمرہ کے لئے جانے والی عورت اگر حیض کی حالت میں ہو تو اس کو طواف کی اجازت تو نہیں ہے۔ کیا یہ درست ہوگا کہ وہ پہلے سعی کر لے اور جب حیض سے پاک ہو جائے تو طواف کرے اور تقصیر کر کے احرام سے باہر آجائے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

حیض کی وجہ سے عورت جب طواف نہیں کر سکتی تو اس کی سعی بھی درست نہیں ہوگی کیونکہ سعی کے لئے اگرچہ طہارت شرط نہیں مگر یہ شرط ہے کہ سعی پورے طواف یا اس کے اکثر یعنی چار پھیروں کے بعد ہو۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم

مُجِیْب                                                                                                                                                                                                             مُصَدِّق

ابو محمد محمدسرفراز اختر العطاری     عبدہ المذنب محمد فضیل رضا العطاری

عورت کا مسواک یا دنداسا  استعمال کرنا

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عورت کے لئے مِسواک کرنا سنّت ہے یا نہیں؟ نیز اگر عورت دَنداسا یا کوئی اور چیز استعمال کرے تو اسے مِسواک کا ثواب ملے گا یا نہیں؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

عورت کے لئے مسواک کرنا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی سنّت ہے البتہ عورت کے لئے مستحب ہے کہ وہ بجائے مسواک کے دوسری نرم چیزیں، مثلاً مِسِّی کے ذریعے دانت صاف کرے کیونکہ عورتوں کے دانت مَردوں کے مقابلے میں کمزور ہوتے ہیں اور مسواک پر مُوَاظَبَت (ہمیشگی) ان کے دانتوں کو مزید کمزور کردے گی اور مِسِّی یا کسی پاؤڈر کے ذریعے دانت صاف کرتے وقت حصولِ ثواب کی نیت پائے جانے کی صورت میں مسواک کا ثواب بھی ملے گا کہ عورت کے لئے یہ چیزیں ثواب کے معاملے میں مسواک کے قائم مقام  ہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

محمد ہاشم خان العطاری المدنی


Share

حضرت سیدتنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

ایک عورت کو یوں تو رشتے کے اعتبار سے ساس، بہو، نند اور بھاوج کی طرح اور بھی بہت سے نام دئیے جاتے ہیں مگر معاشرتی ترقی میں بحیثیتِ مجموعی چار نام ماں، بہن، بیٹی اور بیوی انتہائی قابلِ ذکر ہیں۔ عورت اگر اچّھے کردار، صداقت، امانت اور دیانت داری کی پہرہ دار ہو تو وہ سماج و معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اسلامی تاریخ کے سرسری مطالعہ ہی سے سماجی ترقی میں عورت کا کردار واضح ہوجاتا ہے۔ ماں کا کردار: معاشرتی ترقی میں ماں کا عظیم کردار یہ ہے کہ وہ بچّوں کی بہترین تربیَت کرکے مذہبی، اخلاقی، علمی اور سماجی اعتبار سے ملک و قوم کو بہترین افراد فراہم کرسکتی ہے، ظاہر ہے کہ آغوشِ مادر بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے لہٰذا ماں کی تربیَت بچے کے کردار کی تعمیر میں بے حد اہمیت رکھتی ہے، ماں کی حیثیت سے اگر عورت کا عظیم کردار دیکھا جائے تو اس کی مثال ہمارے غوثِ پاک حضرت سَیِّدُنا شیخ عبدُالقادر جیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی اور حضرت بابا فریدُالدین گنجِ شکر علیہ رحمۃ اللہ الاَکبر کی والدہ ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو بچپن ہی سے صدق و اخلاص اور صوم و صلوٰۃ کا درس دے کر مسلم قوم کو ایسے چمکتے ستارے فراہم کئے جن کی روشنی سے قیامت تک آنے والوں کو منزل کی تلاش میں مدد ملتی رہے گی۔ یاد رہے کہ ان دونوں مبارک ہستیوں نے صرف مسجد و محراب ہی سے اپنا رشتہ قائم نہیں رکھا بلکہ معاشرے سے ظلم و بَربَریّت کے خاتمے اور عمدہ اَخلاق کے پرچار میں بھی مصروف رہے۔ بہن کا کردار: بہن کی صورت میں عورت کے عظیم کردار کی مثال حضرت سَیِّدُنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بہن ہیں جو ان کی اسلام آوری سے پہلے ان کے ہاتھوں زخمی ہونے کے باوجود ان کی سخت مزاجی سے مَرعُوب نہ ہوئیں بلکہ بَرملا فرمایا کہ ہاں میں اور میرے شوہر اسلام لاچکے ہیں۔(فیضانِ فاروقِ اعظم،ج1،ص320ماخوذاً) بیٹی کا کردار: بیٹی کی حیثیت سے ایک عورت اپنا کردار یوں ادا کرسکتی ہے کہ جھوٹ، دھوکا دہی اور دغا بازی وغیرہ تمام برائیاں جو معاشرتی ترقی کی راہ میں رُکاوٹ ہیں ان سے خود بھی بچے اور اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو بھی احسن انداز میں روکنے کی کوشش کرے اس کی مثال عہدِ فاروقی کی ایک بیٹی ہے چنانچہ حضرت سَیِّدُنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں ایک رات کسی گھر سے آواز سُنی: بیٹی! دودھ میں پانی ملا دو، پھر ایک اور آواز آئی: امّی جان! امیرُ المومنین نے دودھ میں پانی ملا کر بیچنے سے منع کیا ہے۔ ماں نے کہا: اِس وقت کونسا وہ دیکھ رہے ہیں؟ جواباً بیٹی نے کہا: امّی جان ہمیں ان کی غیر موجودگی میں بھی ان کی حکمِ عدولی سے بچنا چاہئے۔ حضرت سَیِّدُنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اُس دیانتدار لڑکی کو اپنی بہو بنا لیا جن سے ایک بیٹی پیدا ہوئیں اور ان سے حضرت سَیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ العزیز جیسا گوہرِ نایاب پیدا ہوا۔(عیون الحکایات،ص28ملخصاً) بیوی کا کردار: بیوی کی حیثیت سے ایک عورت کا عظیم کردار یہ ہے کہ وہ خود بھی اخلاقِ حسنہ اختیار کرے اور اپنے شوہر کو بھی اس کیلئے آمادہ کرے جیساکہ حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ حکیم رضی اللہ تعالٰی عنہا نے  اسلام قبول کرنے کے ب-عد اپنے شوہر حضرت سَیِّدُنا عکرمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھی اسلام کیلئے آمادہ کیا۔(کتابُ التوابین، ص123) اسلامی بہنوں کو چاہئے کہ دینی اور معاشرتی خدمت کے معاملے میں اپنے شوہر، باپ، بھائی اور بیٹے کے ساتھ تعاوُن کریں جیساکہ تمام اُمہاتُ المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہن نے ہر نشیب و فراز میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ تعاوُن کیا بلکہ حضرت سَیِّدَتُنا خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے بہت زیادہ مالی خدمت بھی کی۔(فیضانِ امہاتُ المومنین، ص29)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*۔۔۔شعبہ رسائل دعوتِ اسلامی،المدینۃ العمیہ، باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code