فرمانِ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:مرنے والے کے پاس دو فرشتے (منکرنکیر)آتے ہیں اُسے بٹھاتے ہیں پھر اس سے کہتے ہیں: مَنْ رَّبُّکَ؟ تیرا رب کون ہے؟ مُردہ (اگر مسلمان ہے تو) جواب دے گا: رَبِّيَ اللہ میرا رب اللہ ہے۔ پھر فرشتے سوال کریں گے: مَا دِیْنُکَ؟ تیرا دین کیا ہے؟ مُردہ جواب دے گا:دِیْنِيَ الْاِسْلاَم میرا دین اسلام ہے۔ پھر فرشتے سوال کریں گے: مَا ھٰذَا الرَّجُلُ الَّذِیْ بُعِثَ فِیْکُم؟ یہ کون مَرد ہیں جو تم میں بھیجے گئے؟ ([1]) مُردہ جواب دے گا:ھُوَ رَسُوْلُ اللہ وہ تو رَسُوْلُ اللہ (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم )ہیں۔ فرشتے کہیں گے: تمہیں کس نے بتایا؟ مُردہ کہے گا: میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی۔ پھر آسمان سے پُکارنے والا پُکارتا ہے کہ میرا بندہ سچّا ہے لہٰذا اس کے لئے جنّت کا بستر بچھاؤ اور اسے جنّت کا لباس پہناؤ اور اس کے لئے جنّت کی طرف کا دروازہ کھول دو۔ پس اس کے لئے جنّت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ اس تک جنّت کی ہوا اور وہاں کی خوشبو آتی ہے اور تاحدِّ نظر اس کی قبر میں فَراخی (کُشادَگی) کردی جاتی ہے۔ کافر کی موت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: کافر کی روح اُس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں پھر وہ اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے سوال کرتے ہیں: مَنْ رَّبُّکَ؟ تیرا رب کون ہے؟ مردہ کہے گا:ہائے! ہائے! میں نہیں جانتا۔ پھر اس سے سوال کریں گے:مَا دِیْنُکَ؟ تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دے گا:ہائے! ہائے! میں نہیں جانتا۔ پھر فرشتے سوال کریں گے:مَا ھٰذَا الرَّجُلُ الَّذِیْ بُعِثَ فِیْکُم؟یہ کون مَرد ہیں جو تم میں بھیجے گئے؟ مُردہ کہے گا:ہائے! ہائے! میں نہیں جانتا۔تب پکُارنے والا آسمان سے پکارتا ہے کہ یہ جھوٹا ہے لہٰذا اس کے لئے آگ کا بچھونا بچھاؤ اور اسے آگ کا لباس پہناؤ اور اس کے لئے جہنم کی طرف کا دروازہ کھول دو۔ فرمایا: پھر اس تک وہاں کی گرمی اور لَو آتی ہے۔فرمایا: اس پر اس کی قبر تنگ ہوجاتی ہے حتّٰی کہ اس کی پسلیاں اِدھر کی اُدھر ہوجاتی ہیں پھر اس پر اندھے بہرے فرشتے مُسَلَّط ہوتے ہیں جن کے پاس لوہے کے ہتھوڑے ہوتے ہیں اگر ان سے پہاڑ کو مارا جائے تو وہ بھی مٹی ہوجائے، ان سے ایسی مار مارتے ہیں جس کی آواز جنّ و اِنْس کے سوا مشرق و مغرب کی مخلوق سنتی ہے جس سے وہ مٹی ہوجاتا ہے،پھر اس میں رُوح لَوٹائی جاتی ہے۔(ابوداؤد، ج4،ص316، حدیث: 4753 ملتقطاً) عقیدہ: منکر نکیر کے سوالات کا عقیدہ رکھنا واجب ہے۔ (شرح الصاوی علی جوہرۃ التوحید، ص369، 370) یہ عقیدہ احادیث سے ثابت ہے، امام جلالُ الدّین سیوطی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں:اس سلسلے مىں احادىث مُتَواتِر ہىں۔ (شرح الصدور، ص 117) سوالات روح سے ہوں گے یا بدن سے؟: سوالِ نکیرین (منکر نکیر کا سوال کرنا) روح و بدن دونوں سے ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، ج9،ص851) سوالات کب ہوتے ہیں؟: مُردہ اگر قبر میں دفن نہ کیا جائے تو جہاں پڑا رہ گیا یا پھینک دیا گیا، غرض کہیں ہو اُس سے وہیں سوالات ہوں گے اور وہیں ثواب یا عذاب اُسے پہنچے گا، یہاں تک کہ جسے شیر کھا گیا تو شیر کے پیٹ میں سوال و ثواب و عذاب جو کچھ ہو پہنچے گا۔( بہارِشریعت،ج 1،ص113) کن سے سوالات نہیں ہوں گے؟: انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السَّلام سے سوال نہیں ہوں گے اسی طرح بعض صالحین سے بھی سوالاتِ قبر نہیں ہوں گے جیسے شہید، راہِ خدا میں مسلمانوں کی سرحد پر ایک دن رات پہرہ دینے والا، مسلمانوں کے بچے،جو مسلمان شبِ جُمعہ یا روزِ جُمعہ یا رَمَضانُ المبارک میں فوت ہوجائے وہ سوالِ نکیرین سے محفوظ رہے گا۔ (المعتقد مع المعتمد، ص 331) سونے سے قبل سورۂ سجدہ اور سورۂ ملک پڑھنے والا۔ ( اھوال القبور، ص61) طاعون کے سبب مرنے والے (مسلمان) سے بھی سوالاتِ قبر نہیں ہوں گے۔(شرح الصدور، ص150) عمر فاروق اور نکیرین سے سوال: (سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نکیرین کے بارے میں سن کر)حضرت سیِّدُنا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم! جب وہ میرے پاس آئیں گے تو کیا میں اسی طرح صحیح سَالِم رہوں گا جیسے اب ہوں؟‘‘فرمایا:” ہاں۔‘‘عرض کیا: ’’یارسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم! پھر تو میں انہیں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف سے خُوب جواب دوں گا۔‘‘سرکار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’اے عمر! اس رب عَزَّوَجَلَّ کی قسم جس نے مجھے حق دے کر بھیجا! مجھے جبریل امین نے بتایا ہے کہ وہ دونوں فرشتے جب تمہاری قبر میں آئیں گے اور سوالات کریں گے تو تم یوں جواب دو گے کہ میرا رب اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہے مگر تمہارا رب کون ہے؟ میرا دین اسلام ہے مگر تمہارا دین کیا ہے؟ میرے نبی تو محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں مگر تمہارا نبی کون ہے؟ وہ کہیں گے: بڑی تعجب کی بات ہے، ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں یا تم ہماری طرف بھیجے گئے ہو؟‘‘(ریاض النضرۃ ،ج1،ص346)منکر نکیر کیسے ہیں؟: مُردے کے پاس منکر نکیر نامی دو ایسے فرشتے آتے ہیں جن کی آنکھیں نىلى اور لٹکتے گھنگرىالے بال (اثبات عذاب القبرللبيهقی، ص 133، حدیث: 229 ملتقطاً) نہایت ڈراؤنی اور ہیبت ناک شکل، بدن کا رنگ سیاہ، گائے کے سینگوں کی طرح لمبے دانتوں سے زمین چیرتے ہوئے آتے ہیں، مُردے کو جھنجھوڑتے، جھڑک کر اُٹھاتے اور نہایت سختی کے ساتھ کرخت آواز میں سوالات کرتے ہیں۔ (بہارِ شریعت مع حاشیہ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،ج1،ص106 ماخوذاً) منکر نکیر نام کیوں؟: حضرت حکیم ترمذی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: انہیں منکر نکیر اس لئے کہتے ہیں کہ ان کی شکلیں انسانوں، (دیگر) فرشتوں، چوپایوں اور کیڑے مکوڑوں سے بالکل جُدا ہیں، مؤمنین کے لئے بطورِ عزت اللہ پاک ان کی صورت کو دیکھنے اور ثابت قدم رہنے کے لائق بنا دیتا ہے اور قیامت سے قبل برزَخ ہی میں منافق کی ذِلّت اور اس کا پردہ چاک کرنے کے لئے وہ پہلی صورت ہوتی ہے تاکہ منافق کے لئے یہاں بھی عذاب ہو۔ (نوادر الاصول،ج 2،ص1019، حدیث:1323 ملتقطاً) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ المنَّان فرماتے ہیں:ان دونوں (فرشتوں) کا یہ نام اس لئے ہوا کہ ان کی ایسی صورت ہے جسے انسان نے (جیتے جی) کبھی نہیں دیکھا۔ (المعتقد مع المعتمد، ص 182) مؤمن اور سوالاتِ قبر:رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عائشہ! مؤمنین کے لئے منکر نکیر کے سوالات ایسے ہوں گے جیسے آنکھ میں اِثْمِد (سُرمہ) (اثبات عذاب القبر للبيهقی، ص85، حدیث: 116) (یعنی جیسے دکھتی ہوئی آنکھوں میں سرمہ لگایا تو اس کو تکلیف ہو۔(تمہید ابوشکور سالمی مترجم، ص280)) حضرت سیِّدُنا اِبنِ یُونُس شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی فرماتے ہیں:مؤمن کے پاس آنے والے دو فرشتوں کا نام مُبَشِّر اور بَشِیر ہے۔(شرح الصدور، ص144) اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزت فرماتے ہیں:یہ بھی کہا گیا کہ صالحین اور اللہ کے ان نیک بندوں کے پاس جن پر اللہ کی رحمت ہے جو فرشتے آتے ہیں ان میں ایک فرشتے کا نام ”مُبَشِّر“ اور دوسرے فرشتے کا نام ”بَشِیر“ ہے۔( المعتقد مع المعتمد، ص 182)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*۔۔۔ رکن مجلس المدینۃ العلمیہ، باب المدینہ کراچی
Comments