ملِکُ العلماء حضرت علامہ محمدظفر الدین بہاری اور علمِ توقیت:
بارگاہِ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزت سے فیض یافتہ، باکمال و باعمل عالمِ دین، ملِکُ العلماء حضرت علامہ محمدظفر الدین بہاری علیہ رحمۃ اللہ الوَالی 10محرم الحرام1303ہجری کو صوبۂ بہار(ہند) ضلع پٹنہ(موجودہ نام نالندہ، ہند)میں پیدا ہوئے۔ ظفرالدین نام اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزت کی بارگاہ سے ملا اور اسی نام سے شہرت پائی۔ (حیاتِ ملک العلماء،ص9) علمِ توقیت میں مہارت: کئی علوم و فنون میں مہارت کے ساتھ ساتھ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کوعلمِ توقیت میں بھی مہارتِ تامّہ اور معاصرین میں امتیازی خصوصیت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزت نے آپ کے بارے میں فرمایا:(مولانا محمد ظفر الدین قادری) علمائے زمانہ میں علمِ توقیت سے تنہا آگاہ ہیں۔ (ملک العلماء، ص204) علّامہ محمد ظفرالدین بہاری کی توقیت دانی انہی کی زبانی: آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:تقریباً گیارہ سال سے خاکسار (عاجز) برادرانِ دینی کی خدمت اور ان کے روزوں کی درستی و صحت کے لئے ہر سال رمضان شریف کے نقشۂ اوقات ِصوم و صلاۃ زیچ و توقیت کے قواعدِ خاصہ (خاص قواعد) سے ترتیب دیتا ہے اور مخلصِ قدیم (سچے دوست) حاجی محمد لعل خاں صاحب مدراسی شائع کرتے ہیں،باقی گیارہ مہینوں میں نمازوں کی اَبْتَری (بد حالی) دیکھ دیکھ کر دل پریشان ہوتا تھا کہ اوقات ِ نماز صحیح طور پر معلوم نہ ہونے کے سبب بعض لوگ تاخیر کو انتہا تک پہنچا دیتے ہیں اور اکثر لوگ جلدی کرتے ہیں کہ قبل از وقت نماز پڑھ لیتے ہیں،خصوصاًعصر وعشاء میں تو قبل از وقت حنفی نماز پڑھنا ہندوستان میں عام طور پر رائج ہوگیا ہے۔ ان ہی ضَرورتوں کے پیشِ نظر میں نے ایک رسالہ مُسَمّٰی بنامِ تاریخی ”بَدْرُالْاِسْلَامِ لِمِیْقَاتِ کُلِّ الصَّلوٰۃِ وَالصِّیَامِ“ تصنیف کیا۔ (حیاتِ ملک العلماء ص18) علمِ توقیت پر آپ کی تصانیف: علمِ توقیت پر آپ کی کُتُب میں اَلْجَواہِرُ وَ الْیَواقِیتُ فِی عِلْمِ التَّوْقِیت، بَدْرُالْاِسْلَامِ لِمِیْقَاتِ کُلِّ الصَّلوٰۃِ وَالصِّیَامِ، تَوْضِیْحُ الْاَفْلَاک معروف بہ سُلَّمُ السَّمَاءِ، مؤذن الاوقات جیسی قیمتی اور نادِر تصانیف آپ کی توقیت دانی میں مہارتِ تامّہ کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں۔ (ملک العلماء، ص204ملخصاً) حفیظ الرحمٰن عطاری مدنی،نارتھ ناظم آباد، باب المدینہ کراچی
جَدْوَل (Schedule)کی اہمیت
جَدْوَل کیا ہے؟:اپنے روزمَرّہ کے کاموں کا جائزہ لیتے ہوئے دن رات کے اوقات کو اس طرح ترتیب دینا کہ بخوبی یہ بات معلوم ہو جائے کہ فلاں کام فلاں وقت میں کرنا ہے ۔نظامِ کائنات: رب نے اپنی حکمت سے ہر شَے کا ایک مَرْبوط نظام وضع فرمایا ہے، نظامِ کائنات میں غور کریں تو ہر شَے خاص نظام کے تحت نظر آتی ہے، قراٰنِ کریم میں نظامِ حکمت کو بیان کیا گیا ہے جیسا کہ( وَ سَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ دَآىٕبَیْنِۚ-) ترجمۂ کنزالایمان: اور تمہارے لیے سورج اور چاند مسخّر کیے جو برابر چل رہے ہیں(پ13، ابراہیم:33) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) ۔ ربّ نے چاند و سورج کے طلوع و غروب کا مخصوص وقت مقرر کر رکھا ہے،جو ہزاروں سال سے اسی پر عمل کر رہے ہیں اور جب تک وہ چاہے گا اسی طرح اپنے مخصوص وقت پر طلوع و غروب ہوتے رہیں گے۔ آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا جَدْوَل: جب آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم گھر میں داخل ہوتے تو اس میں قیام کے تین حصے کر لیتے۔ (1)اللہ کی عبادت (2) اپنے اہل کےلئے (3)اپنی ذات کے لئے، پھر ذاتی حصے کو اپنے اور لوگوں کے درمیان تقسیم فرما دیتے۔جَدْوَل کی اہمیت: کسی بھی کام کو کرنے اور اس میں کامیابی پانے کے لئے سب سے زیادہ اہمیت وقت کے انتخاب کو حاصل ہے، کامیاب زندگی گزارنے کے لئے لازم ہے کہ ہر قسم کے اُمور کو سرانجام دینے کے لئے اپنے اوقات کا مخصوص جدول بنائیں، جس میں کام کی نوعیت و کیفیت کو پیشِ نظر رکھیں۔ ہرکام کے لئے ایک وقت اور ہر وقت کے لئے ایک کام ہو، پھر تمام کاموں میں غور کیا جائے کہ کونسا کام سب سے زیادہ اہم ہے ؟ جو کام زیادہ اہم ہو اُسے سب سے پہلے کیا جائے، یوں جَدْوَل پر کاربند رہنے سے ہر کام درست و مُنَظَّم ہو گا۔ جَدْوَل کے فوائد: دنیاوی فائدہ یہ ہے کہ تمام تر توجہ اس کام کو کرنے میں صرف ہو گی جس کا جَدْوَل کے مطابق وقت ہو گا ، یوں روزانہ کے کام وقت پر پایۂ تکمیل کو پہنچنے سے سُستی ختم ہو گی، کام میں چستی اور لگن پیدا ہو گی، نکھار آئے گا، مَعاشی و مُعاشَرَتی فوائد کا حصول ہو گا۔ جَدْوَل نہ ہونے یا جَدْوَل پر عمل نہ کرنے کے نقصانات: جَدْوَل نہ ہونے یا اس پر پابندی نہ کرنے سے بہت سا وقت ضائع ہوتا ہے، کام میں یکسوئی حاصل نہیں ہوتی، کوئی کام وقت پر نہیں ہوتا، کاموں کی کثرت سے اہم کام بھولنے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے، یوں کامیابی اور مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوپاتے ۔ (ماخوذ از آقا کا جدول،ص2تا 16) اللہ تعالیٰ ہمیں وقت کی قدر نصیب فرمائے! امین
بنتِ علی محمد،دورۂ حدیث شریف، باب المدینہ کراچی
Comments