(4جنوری2018ء)قصور (پنجاب) کی رہائشی سات سالہ مَدَنی مُنّی زینب غائِب ہوگئی اور پھر چند دن بعد کوڑے کے ڈھیر سے اس کی لاش برآمد ہوئی۔ میڈیکل ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد گلا گھونٹ کر قتل کر دیا گیا تھا۔ اللہ پاک مَدَنی مُنّی کو اپنی رَحمت کے سائے میں جگہ عطا فرمائے اور اس کے گھر والوں کو صبر کی دولت عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یہ دِلخراش واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ بَدقسمتی سے گزشتہ چند سالوں سے ہمارے ملک پاکستان میں بالخصوص بچّوں اور بچّیوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دینے کے واقعات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ یقیناً یہ واقعات قابلِ مذمت اور ان میں ملوّث لوگ سخت سزا کے حقدار ہیں۔ مگر یاد رکھئے! بُرائی کے ذَرائع اور اَسباب کا خاتمہ کئے بغیر صرف وقتی طور پر اس کی مذمت، افسوس اور تبصرہ کرنے کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کے پسینے سے بَدبو آتی ہو تو وہ اس کا علاج کرنے کے بجائے پرفیوم (Perfume) یا باڈی اسپرے (Body Spray) کے ذَریعے اس بَدبو کو دَبانے کی کوشش کرے۔ بُرائی کو پتوں اور شاخوں سے کاٹنے کے بجائے جڑ سے ختم کرنا ضَروری ہے۔ زیادتی کرنے والا بھی ایک انسان تھا، اسی معاشرے کا ایک فرد تھا، آخر اس نے ایسا گھناؤنا کام کیوں کیا؟ ہمیں دونوں ہی اعتبار سے سوچنا چاہئے کہ نہ ہمارے بچے اس فعلِ بد کا شکار ہوں اور نہ ہی معاشرے کا کوئی فرد اس بُرے کام کا ارتکاب کرے۔
ان واقعات کے بڑھنے کی ایک وجہ آج کل اولاد کی جلد شادی نہ کرنا ہے جس کی وجہ سے ایسے اَفراد اپنی خواہشات کی تسکین کی تلاش میں رہتے ہیں۔ دوسری وجہ میڈیا کے ذَریعے فحاشی و عُریانی کا بازار گرم کر کے یا بذریعہ موبائل یا کیبل انٹرنیٹ کی دنیا میں گندی و بے ہودہ ویب سائٹس تک رسائی کو آسان سے آسان بنا کر عوام تک پہنچانا ہے جس سے جنسی خواہشات کو مزید بھڑکایا جا رہا ہوتا ہے۔ میری تمام والدین سے یہ فریاد ہے کہ بالغ ہوتے ہی جلد از جلد اپنی اولاد کی شادی کروا دیں اور انہیں فلموں ڈراموں اور انٹرنیٹ کے غَلَط اِستعمال سے بچانے کی کوشش کریں۔چھوٹے بچوں کی تربیت یوں کی جاسکتی ہے اگر کوئی ان سے گندی بات کرے یا کوئی اجنبی شخص مسکرا کر اُنگلی پکڑائے، چیز دِکھائے، ڈرائے یا دَھمکائے یا ساتھ چلنے کا کہے تو اسے منع کردیں اور اس سے دُور بھاگیں اور اپنے والدین کو اس بات سے ضَرور آگاہ کریں اگر والدین قریب نہ ہوں تو شور مچاکر دوسرے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کریں۔
شیخِ طریقت، امیرِ اَہلِ سنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں: جب ہم چھوٹے تھے تو ہمارى والدہ نے ہمارا ىہ ذہن بناىا تھا اور میں نے بھی اپنی اولاد کو یہ بات سکھائی تھی کہ ”بىٹا! کوئى تمہىں سونے (Gold) کا ڈھىر بھى دِکھائے تو اس کے ساتھ نہىں جانا اور نہ کسی سے کوئی چیز لے کر کھانا۔“ اِسی طرح میں نے اپنے بچّوں کو گلی محلے میں کھیلنے اور دوستیاں کرنے کی بھی اِجازت نہیں دی، ہمارے بچّے جو کرتے تھے گھر میں ہی کرتے تھے۔
میری تمام والدین سے یہ فریاد ہے کہ وہ اپنے بچّوں کی تربیت اور دیکھ بھال کے حوالے سے اپنا کِردار ادا کریں۔ شریعت و سنَّت کے مُطابق تربیت کریں تاکہ ان کے دِل میں خوفِ خُدا، عشقِ مصطفےٰ اور شرم و حیا پیدا ہو۔ بُری صحبت سے بچا کر نیک لوگوں کی صحبت میں رہنے کا عادی بنائیں، گھر میں ٹی وی ہے تو اس پر صرف اور صرف مَدَنی چینل چلائیں۔ اللہ پاک ہر مسلمان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭… دعوت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطاری
Comments