کیا شوہر بیوی کی کمائی استعمال کرسکتا ہے؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مُفتیانِ شرعِ مَتین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا شوہر، بیوی کی کمائی کو اپنے استعمال میں لاسکتا ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَاب
جو چیزیں عورت کی ملکیت میں ہیں خواہ وہ اسے وِراثت میں ملی ہوں یا جہیز میں، کسی نے تحفہ میں دی ہوں یا کما کر حاصل کی ہوں ان تمام کے مُتعلّق حکم یہ ہے کہ وہ عورت کی ملکیّت ہیں، شوہر کو کسی طرح کا حقِ مالکانہ حاصل نہیں، نہ ہی بیوی کی اِجازت کے بغیر اس میں کسی قسم کے تَصَرُّف کی اجازت ہے۔ اَلبتّہ اِجازت صَراحۃً یعنی واضح لفظوں میں ہونا ہی ضروری نہیں، دلالۃً اجازت بھی کافی ہے۔ مثلاً میاں بیوی میں اپنائیّت و بے تکلّفی پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ایک کا استعمال دوسرے پر ناگوار نہیں گزرتا تو جن چیزوں کے استعمال میں یہ صورت پائی جائے یعنی استعمال ناگوار نہ ہو تو انہیں استعمال کرنا جائز ہے جیسے گھریلو استعمال کی چیزیں کہ ان میں بہت سارا سامان وہ ہوتا ہے کہ جو عورت کو جہیز میں ملا ہوتا ہے لیکن آپس کی بے تکلفی کی وجہ سے شوہر بھی استعمال کرتا ہے اور عورت پر ناگوار نہیں گزرتا لہٰذا ان کا استعمال دَلالۃً جائز ہے اور جن چیزوں کے استعمال میں یہ صورت نہ ہو وہاں استعمال کے لئے شوہر کو صَراحۃً اجازت لینا ضروری ہے اور اگر عورت گھر میں سِلائی وغیرہ کرکے یا جائز نوکری سے رقم جمع کرتی ہے اس میں ظاہراً یہ صورت ہے کہ شوہر اگر وہ رقم بلااجازت اپنی ذات پر خرچ کردے تو عورت کو ناگوار گزرے گا لہٰذا عورت کی تنخواہ وغیرہ کی رقم اپنے اوپر استعمال کرنے کے لئے صراحۃً اجازت لینا ضروری ہے۔ ہاں عورت کی تنخواہ، اس کی مرضی سے گھر میں خرچ ہوتی ہے مثلاً اس سے سَودا سَلف لے کر کھانا پکایا جاتا ہے وغیرہ ذٰلِک تو گھر کے دیگر اَفراد کی طرح شوہر بھی ان خریدی ہوئی چیزوں کو استعمال کرسکتا ہے بہت سے گھروں میں اس طرح ہوتا ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں کماتے ہیں اور گھر کا نِظام چلاتے ہیں تو اس طرح اگر بیوی کی آمدنی سے گھر میں کھانے پینے یا استعمال کی دیگر اَشیاء آتی ہیں تو شوہر بھی انہیں استعمال کرسکتا ہے کہ یہاں دَلالۃً اجازت ضرور پائی جاتی ہے۔
تنبیہ:عورت کی مُلازمت (Job) سے مُتعلق یہ مسئلہ نہایت ہی قابلِ تَوجّہ ہے کہ اسے مُلازمت کرنے کی اِجازت پانچ شرطوں کے ساتھ ہے، اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہیں پائی گئی تو عورت کے لئے مُلازمت کرنا حرام ہے۔ وہ پانچ شرطیں یہ ہیں:(1)اَعضائے سَتر یعنی جن اَعضاء کا پردہ فرض ہے مثلاً بال، گلے، کلائی، پنڈلی وغیرہا کا کوئی حصّہ ظاہر نہ ہو۔ (2)کپڑے باریک نہ ہوں کہ جن سے سر کے بال یا کلائی وغیرہ سَتر کا کوئی حصّہ چمکے۔ (3)کپڑے تَنگ و چُست نہ ہوں کہ جن سے بدن کی ہیئت (مثلاً سینے کا ابھار یا پنڈلی وغیرہ کی گولائی) ظاہر ہو۔ بعض عورتیں بہت چُست پاجامہ استعمال کرتی ہیں کہ پِنڈلی کی ہیئت معلوم ہورہی ہوتی ہے، ایسی حالت میں نامحرموں کے سامنے آنا منع ہے۔ (4)کبھی نامحرم کے ساتھ خَفیف (یعنی معمولی سی) دیر کے لئے بھی تنہائی نہ ہوتی ہو۔ (5)اس کے وہاں (یعنی کام کی جگہ) رہنے یا باہر آنے جانے میں فِتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
عبدہ المذنب محمد فضیل رضا العطاری
نابالغ،بالغ ہونے کے بعد نماز کا اِعادَہ کرے یا نہیں؟
سوال:کیا فرماتے ہیں عُلمائے دین و مُفتیانِ شرعِ مَتین اس مسئلہ کے بارے میں کہ نابالغ، وقتی فرض نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے کے بعد اسی وقت میں بالغ ہو تو کیا یہ نماز اسے دوبارہ پڑھنی ہوگی یا نہیں؟بیان فرمادیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نابالغ نے نابالغی کی حالت میں جو نماز پڑھی وہ نفل ہے، فرض نہیں اگرچہ فرض کی نیّت کی ہو کیونکہ فرائض و واجبات مکلَّف پر لازم ہوتے ہیں جبکہ نابالغ اَحکامِ شَرعیّہ کا مکلَّف نہیں ہے۔ لہٰذا پہلے پڑھی ہوئی نماز نفل تھی اب جبکہ وقت کے اندر بالغ ہوا اور اس قدر وقت نماز کا باقی ہے کہ جس میں تکبیرِ تحریمہ کہہ سکے تو اس وقت کی نماز اس پر فرض ہے۔ اگر وقت میں دوبارہ نہیں پڑھی تو قَضا کرنا فرض ہےاور اب بِلاعُذر قَضا کرنے کی صورت میں توبہ بھی کرنی ہوگی یہ تو پوچھے گئے سوال کا جواب ہوا۔ مَزید اس ضمن میں امام محمد علیہ رحمۃ ُاللہ الصَّمد کی سِیرت کا ایک بہت حسین واقعہ ملتا ہے کہ آپ چودہ سال کی عمر میں امامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسئلہ دریافت کیا کہ نابالغ لڑکا عشاء کی نماز پڑھ کر سوجائے اور اسی رات فجر سے پہلے وہ بالغ ہوجائے تو کیا وہ نماز دہرائے گا یا نہیں؟ امام اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم نے فرمایا: دہرائے گا۔ امام محمد علیہ رحمۃ اللہ الصَّمد نے اسی وقت اُٹھ کر ایک گوشہ میں نماز پڑھی (یعنی خود اس کم عمری میں نماز کے پابند تھے اور بالغ ہونے پر نماز کی اتنی فکر تھی کہ ایک نماز بھی میرے ذمّہ پر قضا باقی نہ رہے فوراً ضروری مسئلہ پوچھ کر فرض نماز کی ادائیگی کی تاکہ گناہ سے بچت رہے)۔ اس واقعہ سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے زمانہ میں بچوں کی کس قدر اسلامی تَربیّت کا اِہتمام کیا جاتا تھااور افسوس کہ اب مسلمان ماں باپ، بچوں کی اسلامی تَربیّت سے غافل ہوتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے ہماری نئی نسل دِینی ضروری اَحکام سے ناواقف دکھائی دیتی ہے۔ اس واقعہ سے ملنے والا درس یہ ہے کہ بچوں کو دینی ضروری اَحکامات سکھائے جائیں نماز وغیرہ کا انہیں پابند بنایا جائے تاکہ جب وہ بالغ ہوں اور ان پر نماز روزہ وغیرہ فرض ہو تو ضروری اَحکامات کے مُطابق دُرست طریقہ سے ان اَعمال کو بجا لانے پر قادِر ہوں اور فرائض و واجبات کے تارِ ک و گنہگار قرار نہ پائیں۔
تنبیہ: نابالغ پر اگرچہ نابالغی کی حالت میں نماز فرض نہیں ہے لیکن والدین کو چاہئے کہ عادت ڈالنے کے لئے جب وہ سمجھدار ہوجائیں انہیں نماز سکھائیں اور پڑھنے کی تلقین کرتے رہیں۔ سات سال کی عمر ہونے پر لازمی سمجھائیں، وضو و نماز سکھائیں اور اس کی پابندی کا درس دیں پھر جب بچہ دس سال کا ہوجائے اور نماز نہ پڑھے تو مار کر بھی نماز پڑھائیں۔ لیکن مارنے میں ضَربِِ شَدید یا لاٹھی وغیرہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں یونہی چہرےاور سَر پر مارنے کی اجازت نہیں کہ انسان تو انسان جانور کو بھی چہرہ پر مارنے سے حدیث شریف میں منع فرمایا گیا ہے۔ صرف ہاتھ سے چہرےاور سَر کے علاوہ پیٹھ وغیرہ پر صرف تین ضرب تک کی اجازت ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مُجِیْب مُصَدِّق
محمدساجد عطاری عبدہ المذنبمحمد فضیل رضا العطاری
Comments