دین میں آسانی ہے

ہر چیز کے کچھ نہ کچھ اُصول و ضَوابِط( قاعدے و قوانین) ہوتے ہیں اور ان اُصول و ضَوابِط کو سیکھنے اور سمجھنے والے لوگ بھی مختلف ہوتے ہیں کیونکہ ہر فَرد ہر چیز  جانتا ہو یہ ضَروری نہیں مثلاً ہوائی جہاز،بحری جہاز اور ٹرین کو ہی لے لیجئے کہ بظاہر یہ تینوں سُواریاں ہیں مگر ان تینوں کے چلانے کا انداز اور چلانے والے لوگ مختلف ہیں۔ ہوائی جہاز اُڑانے والے کو پائلٹ، بحری جہاز چلانے والے کو کپتان اور ٹرین چلانے والے کو ٹرین ڈرائیور کہا جاتا ہے۔ اگر یہ تینوں اَفراد (پائلٹ، کپتان اور ٹرین ڈرائیور) اپنی فیلڈ کے علاوہ کسی دوسری سواری کو آسان سمجھ کر چلانا شروع کر دیں تو نتیجہ کیا نکلے گا یہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے اور  کوئی بھی عقلمند انسان انہیں ایسا کرنے نہیں دے گا۔  

اِسی طرح عام دُنْیَوی معاملات کو بھی آسان سمجھ کر شروع نہیں کر دیا جاتا بلکہ کسی سمجھدار اور ماہر شخص سے  مشورہ لیا جاتا ہے اور بعض مخصوص معاملات میں مخصوص فیلڈ والوں ہی سے مشورہ کر کے آگے بڑھا جاتا ہے، مگر افسوس! دِینی  معاملات میں اِس طرح کا اِہتمام نہیں کیا جاتا بلکہ بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ”دِین میں بڑی آسانی ہے۔“واقعی دِین میں بڑی آسانی ہے،  اللہ عَزَّوَجَلَّ  فرماتا ہے:  ( یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-) ترجمۂ  کنزُ الایمان : ”اللہ  تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دُشواری نہیں چاہتا۔“ (پ2، البقرۃ:185) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور نبیِّ کریم   صلَّی اللہ  تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا فرمانِ عظیم ہے:اِنَّ الدِّيْنَ يُسْرٌ بے شک دِین آسان ہے۔(بخاری،ج1،ص26،حدیث:39) مگر دِین آسان ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہرشخص اپنی مَن مانی کرتا پِھرے اور جو سمجھ میں آئے کرتا جائے جیسا کہ٭بعض لوگ نَماز میں ایسی غلطیاں  کر دیتے ہیں جس سے نَماز کا لَوٹانا واجب ہوتا ہے مگر وہ نہیں لَوٹاتے،سمجھانے پر کہہ دیتے ہیں کہ بس ہم نے پڑھ لی اللہ عَزَّوَجَلَّ قبول فرمائے٭ رَمَضانُ المبارک میں روزہ نہیں رکھتے کہ روزہ رکھنا دُشوار ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ ہم پر آسانی چاہتا ہے دُشواری نہیں چاہتا٭  زکوٰۃ فرض ہونے پر حساب لگا کر پوری پوری زکوٰۃ ادا کرنے کے بجائے کچھ رقم صَدقہ وخیرات  کر کے اپنے دِل کو منا لیتے ہیں کہ ہم نے زکوٰۃ ادا کردی اللہ تعالٰی قبول کرنے والا ہے۔ یہی لوگ دُنْیَوی معاملات میں آسان سے آسان کام کو بھی خوب سوچ سمجھ کر اور اس کے جاننے والوں سے راہنمائی لے کر کرتے ہیں تاکہ نقصان نہ ہو جائے مگر دِینی معاملات میں علمائے کرام کَثَّرَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام سے راہنمائی لینا گوارا نہیں کرتے حالانکہ دُنْیَوی نقصان کے مقابلے میں دِینی نقصان زیادہ خَسارے  کا باعِث ہے کیونکہ یہ آخِرت کا معاملہ ہے۔

دِین میں آسانی کا مطلب:اللہ تعالیٰ نے اپنی عِبادت ہم پر فَرْض فرمائی لیکن اپنی رَحْمت سے ہم پرتنگی نہیں کی بلکہ آسانی فرماتے ہوئے مُتَبادِل بھی عطا فرمادئیے۔ روزہ فرض کیا لیکن رکھنے کی طاقت نہ ہو تو بعد میں رکھنے کی اِجازت دیدی، بعض صورتوں میں فدیہ کی اِجازت دیدی، کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی طاقت نہ ہوتو بیٹھ کر ورنہ لیٹ کر اِشارے سے پڑھنے کی اِجازت دیدی، ایک مہینا روزہ کا حکم فرمایا تو  گیارہ(11) مہینے دن میں کھانے کی اِجازت دیدی اور رَمضان میں بھی راتوں کو کھانے کی اِجازت دی بلکہ سحری و افطاری کے کھانے پر ثواب کا وعدہ فرمایا۔ گنتی کے چند جانوروں کا گوشت حرام قرار دیا تو ہزاروں جانوروں ، پرندوں کا گوشت حلال فرما دیا۔ کاروبار کے چند ایک طریقوں سے منع کیا تو ہزاروں طریقوں کی اِجازت بھی عطا فرما دی۔ مَرد کو ریشمی کپڑے سے منع کیا تو بیسیوں قسم کے کپڑے پہننے کی اِجازت دیدی۔ اَلغرض یوں غور کریں تو آیت کا معنیٰ روزِ روشن کی طرح ظاہر ہو جاتا ہے کہ   اللہ تعالیٰ ہم پر آسانی چاہتا ہے اور وہ ہم پر تنگی نہیں چاہتا۔(صراط الجنان،ج1،ص 295)

شریعتِ محمدی میں بہت آسانی ہےمثلاً٭ شریعتِ مُوسَوِی (حضرت موسیٰ  علیہ السَّلام کی شریعت)میں تمام احکامِ الٰہیہ ایک  ساتھ نازل ہوئے جبکہ شریعتِ محمدی میں بَتَدْرِیج(حسبِ موقع) نازل ہوئے٭ شریعتِ مُوسَوِی میں کپڑا پاک کرنے کے لئے نجس حصّے کو کاٹنا ضَروری تھاجبکہ شریعتِ محمدی میں دھونے سے کپڑا پاک ہوجاتا ہے٭ شریعتِ مُوسَوِی میں قتل کی سزا صرف قتل تھی (دِیَت کی کوئی صورت نہ تھی) جبکہ شریعتِ محمدی میں دِیَت کی بھی صورت موجود ہے۔یوں ہی مختلف شریعتوں میں اس طرح کے مسائل بھی تھے مثلاً رات میں کیا گیا گناہ صبح دروازے پر لکھا ہوتا تھا، عبادت خانوں کے علاوہ کہیں عبادت کرنے کی اِجازت نہیں تھی، تَیَمُّم کے ذَریعے پاکی حاصل کرنے کی نعمت مُیَسَّر نہیں تھی، زکوٰةمیں  مال کا  چوتھا حصّہ دینا فرض تھا ، مالِ زکوٰة کو آسمان سے اُترنے والی آگ جلادیتی تھی، ایک نیک کام پر10نیکیوں کے بجائے ایک ہی نیکی ملتی تھی۔ (نور الانوار، ص175) شرائِعِ سابِقہ(یعنی پہلی شریعتوں میں) افطار کے بعد کھانا پینا نمازِ عشاء تک حلال تھا بعد نمازِ عشاء یہ سب چیزیں شب میں بھی حرام ہوجاتی تھیں۔(خزائن العرفان، پارہ2،البقرۃ، ص61،تحت الآیۃ:187)

معلوم ہوا کہ ہمارے دِین میں بڑی آسانی ہے اوریہ آسانی نبیِّ رَحمت صلَّی اللہ  تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بَدولت ہے۔ اب اگر کوئی اس  آسانی سے یہ مُراد لے کہ دِین سیکھنا ضَروری نہیں بس اپنی مَن مانی کرتے جاؤ تو یہ بالکل غَلَط ہے اور ایسی سوچ رکھنے والوں کو غور کرنا  چاہئے کہ  اگر آسانی کا یہی مطلب ہے تو قراٰنِ مجید میں کم وبیش 500آیاتِ کریمہ صرف اَحکامات سے متعلق کیوں نازل ہوئیں؟ ہزاروں اَحادیثِ مُبارکہ میں ڈھیروں ڈھیر اَحکام و مَسائل کیوں بیان کئے گئے؟یاد رکھئے! یہ شیطان کا کُھلا وار ہے، شیطان کے اس وار کو ناکام بناتے ہوئے علمِ دِین سیکھئے اور صحیح طریقے سے عبادت کر کے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں قبولیت کی دُعا کیجئے۔

شیخِ طریقت، اَمیرِ اہلِ سنَّت بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد اِلیاس عطّار قادِری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! افسوس! آج کل صِر ف و صِرف دنیاوی عُلُوم ہی کی طرف ہماری اکثریت کا رُجحان ہے۔علمِ دِین کی طرف بَہُت ہی کم مَیْلان ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: طَلَبُ الْعِلْم ِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ یعنی عِلم کا طَلَب کرنا ہرمسلمان مرد (و عورت) پرفرض ہے۔(ابن ماجہ،ج1،ص146،حدیث:224) اِس حدیثِ پاک کے تحت میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلِ سنَّت مولانا شاہ امام اَحمد رَضا خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن نے جو کچھ فرمایا، اس کا آسان لفظوں میں مختصراً خُلاصہ عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ سب میں اوّلین و اہم ترین فرض یہ ہے کہ بنیادی عقائد کا علم حاصِل کرے۔ جس سے آدمی صحیحُ العقیدہ سُنّی بنتا ہے اور جن کے اِنکار و  مخالَفَت سے کافِر یا گُمراہ ہو جاتا ہے۔اِس کے بعد مَسائلِ نَماز یعنی اِس کے فرائض و شرائط و مُفسِدات ( یعنی نماز توڑنے والی چیزیں) سیکھے تاکہ نَماز صحیح طور پر ادا کر سکے۔ پھر جب رَمَضانُ الْمبارَک کی تشریف آوَری ہو تو روزوں کے مَسائل، مالِکِ نصابِِ نامی ( یعنی حقیقۃً یا حکماً بڑھنے والے مال کے نِصاب کا مالک)ہو جائے توزکوٰۃ کے مَسائل، صاحِبِِ اِستِطاعت ہو تو مسائلِ حج،نِکاح کرنا چاہے تو اِس کے ضَروری مَسائل،تاجِر ہو تو خرید و فروخت کے مَسائل، مُزارِع یعنی کاشتکار (و زمیندار) پرکھیتی باڑی کے مَسائل، ملازِم بننے اور ملازِم رکھنے والے پر اِجارہ کے مسائل۔ وَعَلٰی ھٰذَا الْقِیاس (یعنی اور اِسی پر قِیاس کرتے ہوئے) ہرمسلمان عاقِل و بالغ مَرد وعورت پر اُس کی موجودہ حالت کے مُطابِق مسئلے سیکھنا فرضِ عین ہے۔ اِسی طرح ہر ایک کے لئے مَسائلِ حلال و حرام بھی سیکھنا فرض ہے۔ نیز مَسائلِ قلب (باطنی مَسائل) یعنی فرائِضِ قَلْبِیہ (باطنی فَرائض) مَثَلاًعاجِزی و اِخلاص اور توکُّل وغیرہا اور ان کو حاصِل کرنے کا طریقہ اور باطِنی گناہ مَثَلاً تَکَبُّر، رِیاکاری، حَسَد وغیرہا اور ان کا عِلاج سیکھنا ہرمسلمان پر اَہم فرائض سے ہے۔ (فتاویٰ رضویہ،ج23،ص623-624)


Share