اسلام کی روشن تعلیمات
تقویٰ کی اہمیت اور فائدے
*مولانا محمد ناصرجمال عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر2023ء
اسلام کی روشن تعلیمات میں سے ایک اہم تعلیم اللہ وحدہٗ لاشریک سے ڈرنا یعنی اس کا خوف و خشیت رکھنا بھی ہے۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اِتَّقِ اللَّہَ حَيْثُمَا كُنْتَ یعنی جہاں بھی ہو اللہ پاک سے ڈرتے رہو۔([1])
اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےاِس حدیثِ پاک میں تین وصیتیں فرمائی ہیں،جن میں سے پہلی وصیت اللہ پاک سے ڈرنے کے بارے میں ہے ، اگلی دووصیتوں کے متعلق آئندہ شماروں میں لکھا جائے گا۔اِنْ شآءَ اللہ
اِتَّقِ اللہ: یعنی تمام واجبات ادا کرنے اور تمام گناہوں سے رُکنے میں اللہ سے ڈرو کیوں کہ تقویٰ دین کی بنیاد ہے اور اِسی کے ذریعے مَراتِبِ یقین تک پہنچا جاتاہے۔([2])
تقویٰ و پرہیزگاری کی آسان تعریف :آخرت میں نقصان دینے والےکام سے بچنا”تقویٰ وپرہیزگاری “ ہےاور بچنے والے کو متَّقی و پرہیزگار کہتے ہیں۔([3]) حضرت سفیان ثوری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: لوگوں کو متقین کا نام اِس لئے دیاجاتا ہے کہ وہ اُن ساری چیزوں سے بچتے ہیں جن سے بچا نہیں جاتا۔([4])
تقویٰ کی اقسام:(1)کُفر سے بچنا۔اللہ کے کرم سے یہ ہر مسلمان کو حاصل ہے۔(2)بدمذہبی سے بچنا۔ یہ ہرسُنّی کو نصیب ہے (3)ہر کبیرہ سے بچنا (4)صغائر(چھوٹے گناہوں) سے بھی بچنا (5)شبہات سے بچنا (6)شہوات سے بچنا (7)غیر کی طرف التفات (توجہ کرنے)سے بچنا یہ اللہ پاک کے بہت ہی خاص بندوں کا منصب ہے۔([5]) اللہ پاک سے ڈرنے کی وصیّت تمام امّتوں کو فرمائی گئی چنانچہ اللہ کریم قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(وَ لَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ اِیَّاكُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰه)
ترجَمۂ کنزُالایمان : اور بے شک تاکید فرمادی ہے ہم نے ان سے جو تم سے پہلے کتاب دئیے گئے اور تم کو کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔([6]) قراٰن ِ کریم کی کئی آیات میں تقویٰ اختیار کرنے کا حکم آیا ہے ۔
قراٰن میں تقویٰ کے ذکر سے متعلق اہم پوائنٹ: قراٰن ِ کریم میں الگ الگ نسبتوں کے ساتھ تقویٰ یعنی ڈرنے کا حکم آیا ہے جیسی نسبت ہوتی ہے مفہوم بھی اُسی اعتبار سے ہوتا ہے مثلاً: (1)قراٰنِ کریم میں جگہ جگہ اللہ سے ڈرنے کا حکم آیا ہے چنانچہ جب تقویٰ کی نسبت اللہ پاک کی طرف ہو تو مراد یہ ہوتی ہے کہ”اللہ کی ناراضی اور غضب سے بچو۔“ (2تا4) کبھی اللہ کے عذاب، کبھی عذاب کے مقام (Place) (جیسے جہنم)اورکبھی زمانَۂ عذاب (جیسے قیامت کے دن) سے تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔([7])
تقویٰ کی بنیاد: تقویٰ کی اصل یہ ہے کہ بندہ پہلے اِس بات کو جانے کہ ”کن چیزوں سے تقویٰ اختیار کرنا ضر وری ہے؟“ تقویٰ کا علم حاصل کرنے کے بارے میں حضرت بکر بن خنیس رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :وہ متقی ہوکیسے سکتا ہے جو یہ نہ جانتا ہو کہ بچنا کس سے ہے؟([8])
اللہ کے آخری نبی کا معمول: پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب کسی کولشکر کا امیر مقرر فرماتے تو اُسے خاص طور پر تقویٰ اپنانے اور مسلمانوں کے ساتھ بھلائی سے پیش آنے کی وصیت فرماتے۔([9]) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آخری خطبے میں بھی تقویٰ کی وصیت فرمائی۔ اسی طرح صحابَۂ کرام علیہمُ الرّضوان بھی تقویٰ کی وصیت فرماتے رہے۔([10])
تقویٰ کی تین نشانیاں:حضرت داؤد علیہ السّلام نے حضرت سَیِّدُنا سلیمان علیہ السّلام سے فرمایا : مومن کا تقویٰ تین باتوں سے ظاہر ہوتا ہے: (1)جو کچھ نہیں ملا اس کے بارے میں کامل توکل(پورا بھروسا) کرنا (2)جو کچھ پاس موجو دہو اس پر راضی رہنا (3)جو لے لیا گیا اس پر خوب صبر کرنا۔([11])
تقویٰ کا اثر: جومسلمان تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرتا ہے اللہ کریم اُس کے کاموں میں برکت ڈال دیتاہے اور وہ دنیا کا خیر خواہ (بھلاچاہنے والا) بن جاتا ہے، چونکہ متقی مسلمان کا مقصد اپنی واہ وا نہیں ہوتا بلکہ اللہ کی رضا ہوتی ہے لہٰذا اُس کی باتیں عام لوگوں سے زیادہ فائدہ مند ہوتی ہیں چنانچہ حضرت ابوسعید بلخی رحمۃُ اللہِ علیہ سے پوچھا گیا: بزرگوں کی باتیں بعد والوں کی باتوں سے زیادہ فائدہ مند کیوں ہوتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: (گفتگو سے) اُن کی چاہت”اسلام کی عزّت،لوگوں کی نجات،بھائیوں پر شفقت اور رحمٰن کی رضا ہوتی ہے۔“( اس لئے بزرگوں کی گفتگو زیادہ فائدہ مند ہے۔)اور(گفتگو سے) ہماری چاہت”عزّت ِ نفس، لوگوں کی تعریف اور دنیا میں خوش حالی کی طلب“ ہوتی ہے۔ (اس لئے ہماری باتیں اِتنا فائدہ نہیں دیتیں) ([12])
اللہ والے کی نصیحت:ایک شخص کسی اللہ والے کے پاس گیا اور عرض کی: مجھے کچھ بتائیے۔فرمایا:تمہارے ساتھ میرا معاملہ اُس شخص جيسا ہے جو گندگی میں گِر چکا ہو پھر وہ خوشبو بیچنے والے کے پاس آئےاور کہے:خوشبو کہاں ہے؟اور خوشبو بیچنے والا کہے: جاؤ! صابن خریدو،اپنے آپ کو اور اپنے کپڑوں کو دھو لو پھر آؤ اور خوشبو لگاؤ۔ وہ اللہ والےفرمانے لگے: اِسی طرح تم بھی ہو، تمہارا نفس گناہوں کی گندگی میں لَت پَت ہے، لہٰذاحسرت کاصابن شرمندگی کی مٹی اور توبہ کا پانی لو، خوف و امید کےبرتن کے ذریعے جرم وجفا کی گندگی سے اپنا ظاہر پاک کرو،پھر زہد و تقویٰ کےغسل خانے میں جاؤ،سچائی کے پانی سے نہالو پھر میرے پاس آنا میں تمہیں معرفت کی خوشبو لگاؤں گا۔([13])
حَيْثُمَا كُنْتَ:اِس سےمرادیہ ہےکہ چونکہ اللہ پاک ہمارے ظاہرکوبھی جانتا ہےاور باطن سے بھی باخبر ہے لہٰذا اکیلے ہو یا تم پر نعمتوں کی بارش ہورہی ہو یا ہرطرف سے آزمائشوں نے گھیرا ہو ہرجگہ اور ہر کنڈیشن میں اللہ پاک سے ڈرتے رہو، ہر صورت میں اللہ کے حکم پر عمل کرو، اُسے راضی کرنے والے کام کرو اور اُس کی ناراضی سے بچو۔([14])
اللہ سے ڈرنے کے انداز: ہمارے بزرگ رات دن اللہ پاک کی فرماں برداری میں گزارنے کے باوجود اللہ پاک سے ڈرتے رہتے چنانچہ جب آندھی چلتی تو حضرت عطا سلمی رحمۃُ اللہِ علیہ روتے ہوئے فرماتے: ”یہ میری وجہ سے ہے ،اِس سے مخلوق کو آزمائش ہوگی،اگر عطا مرجائے تو اِس بلا سے مخلوق نجات پاجائے۔“ آپ خوب روتے ہوئے فرماتے: اے عطا! شاید تجھے سب سے پہلے جہنم کی طرف گھسیٹا جائے گا اور تو غافل ہے! ([15]) جس سوسائٹی کے لوگ اللہ پاک سے غافل نہ ہوں اور اُن کے پیشِ نظر یہ ہو کہ اللہ اُنہیں دیکھ رہا ہے وہاں لوگوں کے حقوق (Human Rights)کتنے محفوظ ہوں گے! امن و امان کی صورتِ حال کتنی مثالی ہوگی!فرائض و واجبات کی پابندی کی کیفیت کس قدر متاثرکُن (Impressive) ہوگی! جہاں لوگوں میں اللہ پاک کا خوف پیدا ہوجائے اُن کے ذہن میں دوسرے کا بھلا چاہنے والی سوچ پیدا ہو، وہ اللہ پاک کے بندوں کی آزمائش دور کرنے اور آسانیاں پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں گے، اُن کی زبانیں اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے لوگوں کو فائدہ دینے اور نقصان سے بچانے کے لئے استعمال ہوں گی، اُن کے ہاتھ کسی کو گرانے کےلئے استعمال نہیں ہوں گے بلکہ سنبھالنے اور سہارا دینے کا سبب بنیں گے ۔
آئیے! ہم عہد کریں کہ ہر حال میں اللہ پاک سے ڈریں گے اور ہرصورت میں اُس کی نافرمانی سے بچیں گے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*ذمہ دار شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ (Islamic Research Center)
Comments