فریاد
اپنے شَر سے دوسروں کو بچائیے
دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر2023ء
ایک مرتبہ مدنی مذاکرے میں میرے شیخِ طریقت امیر ِاہلِ سنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ اگر مجھ سمیت سب اىک مَدَنى پُھول قبول کر لىں کہ ” مىرى ذات سے کسى کو شر نہ پہنچے یعنی میری طرف سے کسی کو بُرائى ، تکلىف ، ناگوارى محسوس نہ ہو تو بہت سی حق تلفیوں سے بچت ہو سکتی ہے۔“ ([1])
اے عاشقانِ رسول! معاشرے میں اِس وقت ایک کی طرف سے دوسرے کو پہنچنے والا ”شَر“بہت پھیل گیا ہے، جس کے نظارے گھروں، محلوں، سڑکوں، بازاروں، دفتروں، کمپنیوں، اسکولوں اورکالجوں وغیرہ میں عام دیکھے جارہے ہیں۔
* کہیں شوہر بیوی پر ظلم وزیادتی کرکے اور گھر کے دیگر افراد کے سامنے ذلیل و رسوا کرکے اسے شرپہنچارہاہے تو کہیں بیوی بَد زبانی، بدتمیزی اور نافرمانی کرکے اپنے شوہر کو شر پہنچا رہی ہے،کہیں ساس بے جاسختیاں کرکے اور طرح طرح کے حیلے بہانوں سے بَہُو کو نیچا دکھانے کے لئے اسے شر پہنچارہی ہے تو کہیں بہونے ساس کی ناک میں دم کرکے رکھا ہوا ہے۔ کہیں اولاد کی طرف سے پہنچنے والے شر سے ماں باپ پریشان ہیں تو کہیں اولاد والدین کے شر سے تنگ آکر ڈپریشن کی مریض بنتی جارہی ہے، گھر چھوڑ کر بھاگ رہی یا پھر گھر چھوڑنے کا سوچ رہی ہے۔
* اپنی گاڑی پڑوسی کے گھر کے آگے پارک کر کے، اپنے گھر کا کچرا پڑوسی کے دروازے کے سامنے ڈال کر، گھر کے باہر بیٹھ کر لڈو،تاش اورشطرنج کھیلتے ہوئے رات گئے زور زور سے باتیں کرکے، قہقہے مار کر اور بلند آواز سے گفتگو کرکے، نیز رات دیر سے آکر گاڑی میں بیٹھے ہوئے گھر کے مین گیٹ کے باہر سے ہی ہارن بجا بجاکر اپنے گھر والوں کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کی بھی نیند خراب کرکے اور دیگر مختلف انداز کے ساتھ پڑوسیوں کو شر پہنچایا جارہاہے۔شادی یا پھر دیگر کسی تقریب کے نام پر محلے بھر میں اُودَھم مچا کر، پٹاخے پھوڑ کر، ڈھول بجاکر اور اسی طرح گلی محلے میں کرکٹ کھیل کر پورے محلے کو اپنے شرکانشانہ بنایا جارہا ہے۔
* بائیکوں کےسائلنسر نکال کر، ون ویلنگ کرکے، ون وے پر گاڑی چلاکر، غلط ڈرائیونگ کرکے، گاڑیاں غلط پارک کرکے،ٹریفک جام کرکے یا ٹریفک جام ہو تو خواہ مخواہ ہارن بجابجا کر اور دیگر مختلف ناموں سے روڈز بلاک کرکے راستوں پر لوگوں کو اپنے شرکا نشانہ بنایا جارہاہے۔ اگر روڈ پر کسی کی حق تلفی کر دی،لڑائی جھگڑا کیا اور سامنے والے پر ظلم کردیا تو اب دوبارہ اس سے ملنے کى بظاہر کوئى اُمىد بھى نہىں ہوتى کہ بندہ بعد میں پشیمان ہونے پر معافی کی ترکیب کرلے۔
* ایک ساتھ کام کرنے والے افراد بسا اوقات ایک دوسرے کی چغلیاں کھا کر، مذاق مسخری اور طنز کرکے اپنے شر سے دوسروں کو بہت پریشان کررہے ہوتے اور انہیں ذہنی مریض بنا رہے ہوتے ہیں یہاں تک کہ سامنے والا شخص بعض اوقات دوسرے کے شر سے بچنے کےلئے اپنی نوکری تک چھوڑ دیتا ہے یا چھوڑنے کا ذہن بناچکا ہوتا ہے یا پھر شیطان کے بہکاوے میں آکر انتقامی کارروائی کرتے ہوئے شریعت کی باؤنڈری کو پار کر جاتا ہے۔
* کہیں مقررہ ٹائم سے زیادہ دیر روک کر، طاقت سے زیادہ کام لے کر،گالیاں دے کر، دوکوڑی کا سمجھ کر بات کرتے ہوئے حقیرانہ انداز اختیار کرکےباس کی طرف سے ملازمین کو شر پہنچ رہاہے تو کہیں کام میں ڈنڈی مار کر، ٹائم پورا ہونے سے پہلے کام روک کر، کمپنی کا مال ناقص تیار کرکےاور جان بوجھ کر سیٹھ کو نقصان پہنچانے والے انداز اختیار کر کے ملازمین کی طرف سے اسے شر پہنچ رہاہے۔
* اسی طرح کئی تاجر لوگ ملاوٹ، جھوٹ اور دھوکا بازی کے ذریعے اپنے شر کو عام کررہے ہوتے ہیں، کئی ڈاکٹرز کی طرف سے مریضوں کو بغیر ضرورت کے دوائیاں اور ٹیسٹ لکھ کر شر پہنچایاجارہا ہوتاہے تو کہیں میڈیکل اسٹور والے نقلی دوائیاں بیچ کر لوگوں کو شر پہنچارہے ہوتے ہیں۔
* ہم اپنے بارے میں بھی اگر غور کریں تو دوسروں کو ہماری طرف سے پہنچنے والے ”شر“ کے سبب حقوقُ العباد کی پامالی کا اىک اَنبار ہمیں اپنے اعمال نامے میں بھی نظر آئے گا، نیز ہم سے وابستہ لوگوں کو ہم سے سکون پہنچتا ہے یا شر، تکلیف پہنچتی ہے یا راحت، اپنے اندر جھانک کر اور اپنے رات دن کے معمولات پر غور کرکے ہم میں سے ہر ایک بخوبی اس کا اندازہ کرسکتا ہے بالخصوص ہمارے ماتحت افراد مثلاً بیوی بچے، مُلازمِین اور شاگرد تو ہمارے شَر سے کم ہی بچے ہوئے ملیں گے۔
ہمیں اپنی ذات سے دوسروں کو راحت پہنچانی چاہئے نہ کہ شر، اپنا ایسا ذہن بنانے کےلئے ان احادیثِ مبارکہ کو غور سے پڑھئے:
3 فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:
(1)تم لوگوں کو (اپنے) شر سے محفوظ رکھو،یہ ایک صدقہ ہے جو تم اپنے نفس پر کرو گے۔([2])
(2)جس نے پاکىزہ کھانا کھاىا اور سنَّت کے مطابق عمل کىا اور لوگ اس کے شر سے محفوظ رہے، وہ جنَّت مىں داخل ہو گا۔([3])
(3)تم مىں سب سے بہتر آدمى وہ ہے جس کے شر سے محفوظ رہا جائے اور اس سے بھلائى کى اُمىد رکھى جائے۔ ([4])
حضرت علّامہ عَبْدُ الرَّءُوف مناوى رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہىں: جو شخص بھلائى کے کام کرتا ہو ، ىہاں تک کہ لوگوں مىں اسى حوالے سے جانا جاتا ہو، اس شخص سے بھلائى کى اُمىد رکھى جاتى ہے۔ جس کى بھلائىاں زىادہ ہوں تو دِل اس کے شر سے محفوظ ہوتے ہىں، جب آدمى کے دِل مىں اِىمان مضبوط ہوتا ہے تو اس سے بھلائى کی اُمّىد رکھى جاتى ہے اور لوگ اس کى بُرائى سے محفوظ ہوتے ہىں، جب اِىمان کمزور ہوتا ہے تو بھلائى کم ہو جاتى ہے اور بُرائى غالب ہو جاتى ہے۔([5])
ایسی رِوایات کو پڑھ کر بعض اوقات ہمارا ذہن بن تو جاتا ہے کہ اب اِن شآءَ اللہ دوسروں کو اپنی ذات سے راحت پہنچانی ہے اور شر نہیں پہنچانا مگر جب کوئی معاملہ ہوتا ہے تو غصے میں سب کچھ بھول جاتے ہیں۔
میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے! اپنے شر سے دوسروں کو بچائیے،اپنی ذات اور اپنے کردار سےلوگوں کو راحت پہنچائیے،اللہ کریم ہر عاشقِ رسول کو عافیت و سلامتی نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Comments