*مفتی محمد قاسم عطاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر2023ء
(01)تندرستی کے زمانے میں قضا کی گئی نمازیں مریض کس طرح ادا کرے؟
سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ جس شخص کی تند رستی کی حالت میں نمازیں قضا ہوئیں،اب وہ اس قدر بیمار ہے کہ صرف اشارے سے ہی نماز پڑھ سکتا ہے،کیا اس شخص کی حالتِ صحت کی قضا نمازیں اشارے کے ساتھ پڑھنے سے ادا ہوجائیں گی یا ان نمازوں کو صحت یابی کی حالت میں ہی پڑھنا لازم ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قضا نماز پڑھنے کے حوالے سے شریعتِ مطہرہ کا اصول یہ ہے کہ قضانماز کی ادائیگی کابھی وہی طریقہ ہے جوادا نماز پڑھنے کا ہے،البتہ اگر کوئی عذر لاحق ہو جائے کہ وہ شخص قیام رکوع اور سجود پر قادر نہ رہے،تو اس صورت میں اس شخص کو اپنے عذر کے مطابق نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ چونکہ صورتِ مسئولہ میں یہ شخص صرف اشارے کے ساتھ نماز پڑھنے پر قادر ہے، لہٰذا اگریہ شخص اشارے کے ساتھ قضا نمازیں پڑھےتو اس کی قضا نمازیں ادا ہو جائیں گی،ان نمازوں کو صحت یاب ہونے کے بعد دوبارہ پڑھنا،لازم نہیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(02)بون چائنہ(Bone China) برتن استعمال کرنا کیسا؟
سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ چینی کے برتنوں میں ایسے برتن بھی آتے ہیں، جنہیں بون چائنہ(Bone China) کہتے ہیں،یہ ہڈیوں کو پیس کر بنائے جاتے ہیں، ہمارے ملک میں ان کا استعمال عام ہے، مہربانی فرما کر بتائیں، كيا ہڈیوں سے بنے برتن استعمال کرنا،جائز ہے یا ناجائز ؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
انسان اور خنزیر کے علاوہ بقیہ جانداروں کی ہڈیوں کو پیس کر بنائے گئے برتن استعمال کرنا،جائز ہے، اگرچہ وہ جاندار ماکول اللحم (جن کا گوشت کھایا جاتا ہے) ہوں یا غیر ماکول اللحم (جن کا گوشت نہیں کھایا جاتا ) ہوں،کیونکہ انسان اور خنزیر کے علاوہ باقی جانوروں کی ہڈیوں سے نفع حاصل کرنا، جائز ہےکہ ان جانوروں کی ہڈیاں پاک ہیں۔چونکہ برتن بنانے کے طریقہ کار میں پہلے ہڈیوں کی صفائی کی جاتی ہے تاکہ اس پر لگی رطوبت ختم ہو جائے،تو اس رطوبت کے ختم ہونے کے بعد ہڈیاں جو کہ بذات خود پاک ہیں، ہر طرح کی نجاست سے پاک ہو جاتی ہیں،لہٰذا ان ہڈیوں سے بنے برتن استعمال کرنا، جائز ہے۔مزید یہ کہ جانداروں کے پاک اجزا کو استعمال کرنے کی اجازت حدیث سے بھی ثابت ہے،جیسا کہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ وسلَّم ہاتھی کے دانتوں سے تیار شدہ کنگھی استعمال فرمایا کرتے تھے۔
البتہ انسان اور خنزیر کی ہڈیوں سے بنے ہوئے برتن یا جن برتنوں میں ذرہ برابر بھی انسان یا خنزیر کی ہڈی شامل ہو،ان کا استعمال کرنا ناجائز و حرام ہے،کیونکہ ان دونوں کے اجزاء سے نفع حاصل کرنا حرام ہے۔ انسان کی ہڈی سے نفع حاصل کرنا، اس لیے ناجائز و حرام ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے،تو اس کی عزت و تکریم کے پیشِ نظر اس کے اعضاء سے انتفاع بھی ناجائز و حرام ہے۔خنزیر کی ہڈی سے نفع حاصل کرنا، اس لیے ناجائز و حرام ہے کہ خنزیر نجس العین ہے، لہٰذا اگر برتن بنانے میں انسان یا خنزیر کی ہڈیوں کا استعمال ہو اہو اور یہ بات تحقیق سے بھی ثابت ہو، محض شبہ نہ ہو، توان برتنوں کو استعمال کرنا،جائز نہیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(03)کیا شہرِ مکّہ میں نیکی کی طرح گناہ بھی لاکھ کے برابر ہے؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی مسجدِ حرام کے علاوہ حدود ِ حرم میں نیکی یاگناہ کرتا ہے تو کیا وہ بھی لاکھ کے برابر ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ایک نیکی پر لاکھ نیکیوں کے برابر ثواب یا ایک گناہ کا لاکھ گناہوں کے برابر وبال صرف مسجدالحرام سے خاص نہیں، بلکہ مکمل شہرِ مکہ کا یہی حکم ہے۔ خود نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بصراحت شہرِ مکہ میں ایک رمضان اور اُس کے روزوں کو ایک لاکھ رمضان کے مہینوں کے برابر قرار دیا۔ اِسی طرح جلیل القدر تابعی حضرت ابو سعید امام حسن بصری رحمۃُ اللہِ تعالیٰ علیہ نے مکّۂ مکرمہ میں ایک روزے کو ایک لاکھ روزوں اور ایک درہم صدقہ کرنے کو ایک لاکھ درہم صدقہ کرنے کے مساوی فرمایا۔ حضرت ِ ابنِ عباس رضی اللہُ تعالیٰ عنہما سے مکہ مکرمہ سے ہٹ کر طائف کو قیام گاہ بنانے کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے خوفِ خدا اور بربنائے تقویٰ ارشاد فرمایا:میں اُس شہر میں کیسے مستقل قیام رکھوں کہ جہاں نیکیوں کی طرح گناہوں کا وبال بھی بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ نیکی یا گناہ کی لاکھ سے برابری مسجد الحرام ہی نہیں بلکہ پورے شہرِ مکہ کو محیط ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(04)ایک ہی قسم متعدد بار کھاکر توڑدینے سے ایک ہی کفارہ لازم آئے گا یا قسم کے برابر کفارے؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے قسم کھائی کہ ”اللہ کی قسم میں فلاں کی شادی پر نہیں جاؤں گا۔“ اور قسم کے یہ الفاظ اس نے کئی بار کہے اور مختلف محفلوں میں کہے، تو یہ ایک قسم ہوئی یا متعدد اور اب اگر وہ یہ قسم توڑدے اور شادی میں چلا جائے، تو کتنے کفارے لازم ہوں گے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بیان کردہ صورت میں قسم کھانے والے نے جتنی بار قسم کے مذکورہ الفاظ دہرائے اتنی قسمیں منعقد ہو ئیں اور قسم توڑنے کی صورت میں اتنے ہی کفارے لازم ہوں گے،خواہ یہ الفاظ اسی مجلس میں دہرائے یا دوسری مجلس میں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* (نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ، دار الافتاء اہلِ سنّت، فیضان مدینہ، کراچی)
Comments