روشن ستارے
صَدَقَ اَبُوْ بَکْر
ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سچ کہا ہے
*مولانا عدنان احمد عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر2023
مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ مولا علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ منبر پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہوئی حدیث مبارکہ بیان کرتے اور بآوازِ بلند یہ کہا کرتے تھے: صَدَقَ اَبُوْ بَکْر ابو بکر نے سچ کہا ہے، صَدَقَ اَبُوْ بَکْر ابو بکر نے سچ کہا ہے۔([1])
پیارے اسلامی بھائیو! مسلمانوں کے سب سے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صداقت کا ذکر قراٰنِ پاک اور کلماتِ رسول کے ساتھ ساتھ جبریل علیہ السّلام ، صحابَۂ کرام اور تمام اہلِ حق مسلمانوں کی زبانوں پر جاری ہوا اور اِن شآءَ اللہ تاقیامت جاری رہے گا، آئیے! کچھ خاص واقعات پڑھئے جن میں حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی صداقت کا تذکرہ ہے۔
جبریل نے کہا ”صدیق“ ایک مرتبہ مہاجرین اور انصار صحابۂ کرام بارگاہِ رسالت میں حاضر تھے حضرت ابوبکر صدیق نے عرض کی: یارسولَ اللہ! آپ کی زندگی کی قسم! میں نے کبھی کسی جھوٹے معبود کو سجدہ نہیں کیا، ایک مرتبہ میں نے بچپن میں ایک جھوٹے معبود کو پتھر مارا تو وہ منہ کے بل گر پڑا، میرے والد میرا ہاتھ پکڑ کر میری والدہ کے پاس لے آئے اور انہیں ساری بات بتادی، والدہ نے کہا:اسے چھوڑ دو، ایک رات میرے پاس کوئی نہ تھا، کوئی کہنے والا کہہ رہاتھا: اے اللہ کی بندی! تجھے ایک لڑکے کی خوش خبری ہو اس کا نام آسمان میں صدیق ہے اور یہ محمد کا ساتھی ہے، حضرت ابو بکر صدیق نے اپنی بات مکمل کی تو حضرت جبریل علیہ السّلام بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور 3 مرتبہ یہ کلمات کہے: صَدَقَ اَبُوْ بَکْر ابوبکر نے سچ کہا۔([2])
معراج کی رات نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت جبریل علیہ السّلام سے فرمایا: اہلِ مکہ میری بات کی تصدیق نہیں کریں گے۔ عرض کی: آپ کی تصدیق ابوبکر کریں گے وہ صدیق ہیں۔([3])
نبی نے کہا ”صدیق“پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم معراج سے تشریف لائے تو کافروں نے بیتُ المقدس کے بارے میں سوالات کئے، اتنے میں حضرت جبریل علیہ السّلام اپنے پروں میں بیتُ المقدس لئے حاضر ہوگئے، پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیتُ المقدس کو دیکھ دیکھ کر کفار ِمکہ سے ارشاد فرمانے لگے: بیتُ المقدس میں یہاں ایک دروازہ ہے، اس جگہ پر ایک دروازہ ہے، حضرت ابو بکر ساتھ ساتھ یہ کہتے جاتے: آپ نے سچ فرمایا، آپ نے سچ فرمایا، اس دن رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ ارشاد فرمایا: یَا اَبَا بَکْرٍ اِنّیِ قَدْ اَسْمَیْتُکَ الصِّدِّیْق یعنی اے ابوبکر! میں تمہیں صدیق نام دیتا ہوں۔([4])
ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا: کیا آپ نے زمانۂ جاہلیت میں شراب پی تھی؟ آپ نے فرمایا: میں اپنی عزت اور مروَّت کی حفاظت کیا کرتا تھا اور جو شراب پیتا ہے وہ اپنی عزت اور مروت کو ضائع کر بیٹھتا ہے، یہ بات نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک پہنچی تو دو مرتبہ ارشاد فرمایا: صَدَقَ اَبُوْ بَکْر ابو بکر نے سچ کہا۔([5])
بُراق کو دیکھتے ہیں صدیق!ایک مرتبہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جبریل میرے پاس براق لے کر آئے، یہ سُن کر حضر ت ابوبکر صدیق نے عرض کی: یارسولَ اللہ! میں نے اسے دیکھا تھا، ارشاد فرمایا: اسے بیان کرو۔ عرض کی: ”بَدَنَۃ“ یعنی اونٹنی یا گائے (کی طرح)، پیارے نبی نے فرمایا: صَدَقْتَ قَدْ رَاَیْتَہَا یَا اَبَا بَکْر اے ابوبکر! تم نے سچ کہا ہے تم نے اسے دیکھا ہے۔([6])
جان نچھاور کرتے ہیں صدیق! جب پارہ5،سُورۃُ النسآء کی آیت نمبر66 نازل ہوئی (ترجَمۂ کنز الایمان : اور اگر ہم ان پر فرض کرتے کہ اپنے آپ کو قتل کردو یا اپنے گھر بار چھوڑ کر نکل جاؤ تو ان میں تھوڑے ہی ایسا کرتے) تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یارسولَ اللہ! اگر آپ مجھے حکم دیتے کہ میں اپنے آپ کو قتل کردوں تو ایسا ضرور کرتا، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے ابوبکر! تم نے سچ کہا۔([7])
حق بات کہتے ہیں صدیق! شوال سن8ھ جنگِ حُنین کے بعد آقا کریم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی کافر کو مارا اور اس کے پاس ثبوت ہے تواس کافر کا سامان اسی مسلمان کو ملے گا، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے ایک کافر کو قتل کیا تھا مگر ان کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا، بارگاہِ رسالت میں عرض کی تو ایک شخص کھڑے ہوکر کہنے لگا: اس کافر کا سامان میرے پاس ہے آپ ابوقتادہ کو مجھ سے راضی کردیں (کہ وہ سارا سامان میرے پاس رہنے دیں) یہ سُن کر حضرت ابو بکر صدیق کہنے لگے: اللہ کی قسم! یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لڑے اور اس کافر کا مال تمہیں دے دیا جائے، یہ سُن کر نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ابو بکر نے سچ کہا ہے، پھر اس آدمی سے فرمایا: تم ابو قتادہ کو سامان دے دو، اس نے سامان حضرت ابوقتادہ کو دے دیا۔([8])
تعبیر بیاں کرتے ہیں صدیق! ایک مرتبہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنا خواب سنایا: گویا کہ میں ایک لوہے کے گنبد میں ہوں اور آسمان سے شہد اترتا ہےکوئی شخص اسے ایک دو مرتبہ چاٹتا ہے، توکوئی اسے زیادہ چاٹتا ہے، کچھ لوگ وہ ہیں جو صرف چسکی لیتے ہیں، رسولِ کریم کی اجازت سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خواب کی تعبیر یوں بیان کی: لوہے کاگنبد اسلام ہے، آسمان سے اترنے والا شہد قراٰن پاک ہے جو ایک دو مرتبہ چاٹتا ہے وہ ایک دو سورتیں سیکھنے والا ہےاور چسکی لینے والے لوگ وہ ہیں جنہوں نے اسے جمع کر رکھا ہے، یہ تعبیر سُن کر نبیِّ کریم نے ارشاد فرمایا:صَدَقْتَ تم نے سچ کہا۔([9])
قراٰن نے کہا ”صدیق“ 22جُمادَی الاُخریٰ13ہجری کو حضرت ابو بکر کا وصال ہوا، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے روتے ہوئے آپ کی شان بیان کی جن میں یہ کلمات بھی کہے: اللہ کریم نے آپ کا نام اپنی کتاب میں صدیق رکھا:
(وَالَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳))
ترجَمۂ کنزُالعرفان: اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جس نے ان کی تصدیق کی یہی پرہیزگار ہیں۔ یعنی پیارے آقا توحید کا پیغام لانے والے ہیں اور حضرت ابوبکر ان کی تصدیق کرنے والے ہیں۔([10])
شیرِخدا نے کہا ”صدیق“ حضرت شیر ِخدا مولا علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا: جب کوئی صحابیِ رسول مجھے حدیث بیان کرتے ہیں تو میں ان سے حلف لیتا (کہ یہ حضورِ اکرم کی حدیث ہے) جب وہ قسم کھالیتے تو میں ان صحابی کی تصدیق کردیتا (کہ یہ حضور کی حدیث ہے) اور بےشک حضرت ابوبکر مجھے کوئی حدیث بیان کرتے ہیں تو میں حضرت ابوبکر سے حلف نہیں لیتا (اور ان کی تصدیق کرتا ہوں اور کہتا ہوں) کہ ابوبکر سچ کہتے ہیں۔([11])
اے اللہ! ہمارے دل حضرت ابو بکر صدیق کی محبت سے سرشار رہیں اور ان کی برکتوں سے ہمیں مالامال فرما۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ، کراچی
Comments