حضرت ابوہیثم مالک بن تیھان رضی اللہ عنہ

روشن ستارے

حضرت ہیثم بن تیہان رضی اللہ عنہ

*   عدنان احمد عطاری مدنی

ماہنامہ صفر المظفر1442ھ

ایک مرتبہ نبیِّ  اکرم  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  رات یا دن کے ایسے وقت میں باہر تشریف لائے جس وقت عموماًتشریف نہ لایا کرتے تھے اور نہ ہی اس وقت میں کوئی ملاقات کے لئے حاضر ہوتا تھا ، باہر حضرت سیّدُنا ابوبکر صدیق و حضرت سیّدُنا عمر فاروق    رضیَ اللہ عنہما   موجود تھے۔ نبیِّ رحمت  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نے فرمایا : اس گھڑی تم دونوں کو اپنے گھروں سے کس چیز نے نکالا؟ عرض کی : بھوک نے ، ارشاد فرمایا : اس کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! مجھے بھی اس نے نکالا جس نے تم کو نکالا ، اُٹھو!دونوں حضرات نبیِّ کریم  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے اور ایک انصاری  صحابی  رضیَ اللہ عنہ  کے ہاں پہنچے ، یہ انصاری صحابی بہت بڑے باغ اور بکثرت بکریوں کے مالک تھے اور کوئی خادم بھی نہ رکھتے تھے ، نبیِّ محترم  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نے آگے بڑھ کر سلام کرکے تین مرتبہ اندر داخل ہونے کی اجازت  مانگی۔ دروازے کے پیچھے انصاری صحابی کی زوجہ  تھیں انہوں نے سلام  کی آواز کو سنا  اور یہ چاہتی تھیں کہ نبیِّ معظم  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  بار بار سلامتی کی دعائیں دیتے رہیں اس لئے دروازہ نہ کھولا۔ جب آخری نبی ، حضرتِ محمدِ عربی صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نے واپس جانے کا ارادہ کیا تو وہ تیزی سے باہر نکل آئیں اور عرض گزار ہوئیں : مرحبا ، اے اللہ کے نبی! میں نے آپ کے سلام کو سُن لیا تھا مگر یہ چاہتی تھی کہ  بار بار آپ سے سلامتی کی دعائیں ملیں۔ نبیِّ مختار  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نے ان کے شوہر کے بارے میں پوچھا : وہ کہاں ہیں؟ بولیں : ہمارے لئے میٹھا پانی لینے گئے ہیں ، آپ سب اندر آجائیے وہ کسی بھی وقت آجائیں گے پھر ان مقدس حضرات کے لئے ایک درخت کے نیچے چادر بچھادی۔ اتنے میں وہ انصاری صحابی  رضیَ اللہ عنہ  پانی کے دو بھرے ہوئے مشکیزے گدھے پر رکھ کر لے آئے جونہی نبیِّ انور  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  اور دونوں عاشقانِ نبی کی زیارت سے مشرف ہوئے توبہت خوش ہوئے ، اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا (کہ آج معراج کا دولہا عرش اعظم کا مہمان میرے گھر کیسے کرم فرما ہوگیا ، میں اپنے مقدر پر جس قدر ناز کروں کم ہے ، آج میرا باغ رشکِ خُلدِ بریں بلکہ رشک عرش بریں ہے) اور گلےسے لگ گئے پھر دست بوسی کی سعادت پائی اورعرض گزار ہوئے : میرے ماں باپ آپ پر قربان ! اللہ کا شکر ہے کہ  آج میرے مہمانوں سے زیادہ معزّز  کسی کے مہمان نہیں ہیں ، ایک روایت میں ہے کہ وہی انصاری صحابی   رضیَ اللہ عنہ  ان محترم  حضرات کو اپنے باغ میں لے کر آئے  اور ان متبرک حضرات کے لئے چادر بچھائی  پھر کھجور کے درخت سے  ایک بڑا خوشہ توڑ کر بارگاہِ رسالت میں پیش کردیا۔ اس خوشے میں  خشک و تَرکھجوریں تھیں عرض کی : اس سے کھائیے۔ نبیِّ آخر الزمان  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نے ارشاد فرمایا : صرف تَر (پکی ہوئی) کھجوریں کیوں نہیں  لائے؟ عرض کی : میں نے  مختلف قسم کی کھجوریں حاضر خدمت کردیں تاکہ جو آپ کا دل چاہے آپ اسے تناول فرمالیں۔  تینوں مکرّم حضرات  نے اس خوشہ سے کھجوریں کھائیں اور وہ میٹھا پانی پیا۔ پھرانصاری صحابی نے اپنی زوجہ سے پوچھا : تم نے پیارے نبی  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  کے لئے کچھ تیار کیا؟ زوجہ نے کہا : نہیں ، یہ سُن کر انہوں نے فرمایا : اب کھڑی ہوجاؤ۔ اِدھر  زوجہ محترمہ نے جَو لئے اور انہیں پیسا ، اُدھر انصاری صحابی  رضیَ اللہ عنہ  نے چھری پکڑی اور بکریوں کی طرف بڑھے  تاکہ ان معظم مہمانوں کے لئے کھانا تیار ہوسکے۔ یہ دیکھ کر نبیِّ کریم  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نے فرمایا : دودھ والی بکری ذبح نہ کرنا۔ جان و دل قربان کرنے کا جذبہ رکھنےوالے ان انصاری صحابی  رضیَ اللہ عنہ  نے فرمانِ نبی  پر عمل کیا اوراپنے مبارک مہمانوں کےلئے  بکری یا بھیڑ کا بچہ  ذبح کیا پھر گوشت   پکا کر ان باوقار مہمانوں کی خدمت میں پیش کردیا۔ حضرت سیّدُنا عبداللہ بن رواحہ  رضیَ اللہ عنہ  نے اس مہمان نوازی کا نقشہ کھینچ کر اَشعار کی لڑی میں پرو دیا ہے ، ایک شعر کا ترجمہ ملاحظہ کیجئے : میں نے کسی قوم کے لئے اسلام جیسی عزت نہیں دیکھی  اور نہ ہی اِراشیّ کے مہمانوں کی مثل کوئی گروہ دیکھا۔ ([i]) پیارے اسلامی بھائیو! پیارے نبی اور ان کے پیارے اصحاب کی دلداری اور اتنی پیاری مہمان نوازی کرنے والے پیارےصحابی حضرت سیّدُنا ابوہَیثم مالک بن تَیِّہان  رضیَ اللہ عنہ  تھے۔ اسی دعوت کے اختتام پر سیّدُ الانبیاء  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نے آپ سے پوچھا : کیا تمہارے ہاں کوئی خدمت گار ہے؟ عرض کی : جی نہیں ، ارشاد فرمایا : جب ہمارے پاس قیدی آئیں توہمارے ہاں آجانا۔ حکایت : جب نبیِّ مقدس   صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  کے پاس دو غلام لائے گئے تو آپ  رضیَ اللہ عنہ  حاضرِ خدمت ہوئے نبیِ بحر و بَر   صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نے فرمایا : ان میں سے ایک چُن لو ، آپ نے عرض کی : یا نبیَ اللہ! آپ ہی پسند فرما دیں۔ نبیِّ مصطفےٰ  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نے فرمایا : جس سے مشورہ لیا جائے وہ امین ہوتا ہے (پھر ایک غلام کی جانب اشارہ کرکے فرمایا : ) تم اسے لو کیونکہ میں نے اسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے  اور میں تمہیں اس کے بارے میں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں ۔ گھر آکر آپ  رضیَ اللہ عنہ  نے نبیِّ پاک کا ارشاد پاک اپنی زوجہ کو سنایا تو وہ کہنے لگیں : اللہ کے نبی نے اس غلام کے بارے میں جو بھلائی کی وصیت کی ہے اس غلام کو آزاد کئے بغیر تم اس فرمان تک نہیں پہنچ سکتے ، یہ سنتے ہی آپ نے اس غلام کو آزاد کردیا۔ ([ii] )اسلام سےپہلےاوربعد : آپ  رضیَ اللہ عنہ  زمانۂ جاہلیت  میں بھی باطل معبودوں (کی عبادت) کو ناپسند کرتے تھے اور ان سے ناگواری کا اظہار کیا کرتے تھے۔ ([iii])ایک قول کے مطابق اعلانِ نبوت کے گیارھویں سال  مکےکی ایک گھاٹی میں سب سے  پہلے جن 6 انصار صحابہ  رضیَ اللہ عنہ م نے اسلام  قبول کیا  ان میں آپ کا نام بھی شامل ہے ۔ اس کے بعد آپ  رضیَ اللہ عنہ  نے دیگر صحابۂ کرام کے ساتھ مل کر مدینے میں اسلام کی ترویج و اشاعت کا کام شروع کردیا۔ ([iv])پھر تیرھویں سال 70 خوش نصیب افراد نے رحمت والے نبی  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  کے دستِ انور پر بیعت کی تو آپ بھی ان میں موجود تھے۔ آپ ان بارہ خوش نصیب اور معتبر افراد میں سے ایک ہیں جن کو نبی مکرّم  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  کی جانب سے نقیب (قوم کا سردار) بنایا گیا۔ ([v])دعائے نبوی : حضرت  عبداللہ بن رَواحہ  رضیَ اللہ عنہ  کی شہادت  کے بعد نبیِّ پاک  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نے آپ کو خیبر کی طرف بھیجا تاکہ آپ  وہاں کی کھجوروں کی  منصفانہ  تقسیم  کریں۔ جب آپ تقسیم کاری کے بعد واپس پلٹے تو نبیِّ مجتبیٰ  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  نے آپ کو دعاؤں سے نوازا۔  مجاہدانہ شان : آپ  رضیَ اللہ عنہ  جنگِ بَدر ، معرکۂ اُحد اور تمام غزوات میں نبیِّ دِلدار  صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم  کے ساتھ کفار سے لڑتے اور تلوار کے جوہر دکھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ([vi]) میدانِ  جنگ میں آپ دو تلواریں  رکھا کرتے تھےاسی وجہ سے آپ کا لقب ذُو السَّیْفَین یعنی دو تلوار والا تھا۔ ([vii]) شہادت : ایک قول کے مطابق ماہِ صفرُ المظفر سِن  37 جنگِ صِفِّین میں حضرت ابوہَیثم مالک بن تَیِّہان  رضیَ اللہ عنہ  حضرت سیّدُنا علی  رضیَ اللہ عنہ  کے ساتھ تھے اور اسی جنگ میں شہادت کے بلند مقام  پر فائز ہوئے۔ ([viii])حضرت سیّدُنا علی  رضیَ اللہ عنہ  نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپ  رضیَ اللہ عنہ  کی تدفین اپنے ہاتھوں سے کی۔ ([ix])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*   مُدَرِّس مرکزی جامعۃالمدینہ ،  عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ، کراچی



([i])مسلم ، ص867 ، حدیث : 5313 ، ترمذی ، 4 / 163 ، حدیث : 2376 ، مسند ابی یعلیٰ ، 1 / 126 ، حدیث : 245 ، مسند بزار ، 1 / 316 ، حدیث : 205 ، مستدرک ، 5 / 181 ، حدیث : 7260 ، معرفۃ الصحابہ ، 4 / 197 ، الزھد لاحمد ، ص68 ، روض الانف ، 2 / 249 ، مراٰۃ المناجیح ، 6 / 57

([ii])ترمذی ، 4 / 164 ، حدیث : 2376

([iii])طبقات ابن سعد ، 3 / 341

([iv])طبقات ابن سعد ، 3 / 341 ، اسد الغابہ ، 5 / 15

([v])طبقات ابن سعد ، 3 / 342 ،  455

([vi])طبقات ابن سعد ، 3 / 342

([vii])استیعاب ، 2 / 57

([viii])اسد الغابہ ، 6 / 342 ، روض الانف ،  2 / 249

([ix])انساب الاشراف ، 3 / 97


Share