العلم نور
اعلیٰ حضرت کی ذخیرۂ حدیث پر نظر
* حیدر علی مدنی
ماہنامہ صفر المظفر1442ھ
شریعتِ اسلامیہ کے بنیادی اور اہم ترین ماخذ میں سے قراٰنِ کریم کے بعد حدیث شریف کا نمبر ہے۔ اپنی اور بندگانِ خدا کی انفرادی اور اجتماعی ہدایت کے لئے اہلِ اسلام جہاں قراٰنِ کریم سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں وہیں شمعِ حدیث سے بھی نورِ ہدایت حاصل کرتے ہیں کہ گمراہی سے حفاظت کے لئے بارگاہِ رسالت مآب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے جو دو نسخے عطا ہوئے ہیں ان میں سے دوسری سنّت مبارکہ ہے جس کے جاننے کا ذریعہ احادیثِ مبارکہ ہی ہیں جیسا کہ حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تحقیق میں تم لوگوں میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک انہیں تھامے رکھو گے گمراہ نہ ہوگے (پہلی) اللہ کی کتاب اور (دوسری) میری سنّت۔ (مشکاۃ المصابیح ، 1 / 56 ، حدیث : 186)
ایک فقیہ و مفتی کے لئے جیسے قراٰنِ کریم کے مفاہیم اور معانی پر مطلع ہونا ضروری ہے ویسے ہی احادیثِ طیبات پر آگاہی بھی لازمی ہے ، امام جلالُ الدّین سُیوطی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ سیّدُنا عبدُاللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا : آدمی کب فتویٰ دے سکتا ہے؟ فرمایا : جب وہ آثار (یعنی احادیث) کا عالم اور رائے (یعنی قیاس) میں صاحبِ بصیرت ہو۔ (مفتاح الجنۃ ، ص 105)
اسلام کے اوّلین زمانہ سے لے کر زمانۂ حال تک کے فقہائے کرام علمِ حدیث میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں کہ بڑے بڑے محدثینِ کرام کے اسمائے گرامی ان فقہا کے شاگردوں کے بھی شاگردوں کی فہرست میں دکھائی دیتے ہیں۔ ماضی قریب کی عظیم روحانی ، علمی اور انقلابی شخصیت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ جو کہ دینیات ، ریاضیات وغیرہ کی ضمنی شاخوں سمیت بے شمار علوم پر کامل دسترس رکھتے تھے ان کی تصنیفات کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ بحرِ حدیث کے بھی ماہر غَوّاص اور شِناوَر تھے کہ اپنی رائے اور فتویٰ کی تائید میں جہاں بے شمار آیات اور فقہی جزئیات ذِکْر کرتے تھے وہیں بعض اوقات بکثرت احادیثِ طیبات بھی ذکر فرماتے تھے اور یہ کثرت مختلف صورتیں اختیار کر جاتی تھی مثلاً وہ فتویٰ ایک مستقل رسالے یا تصنیف کی حیثیت اختیار کرجاتا یا اربعین کی صورت اختیار کر جاتا تھا چند مثالیں ملاحظہ کیجئے :
(1)ایک مسلمان کو یہ عقیدہ رکھنا چاہئے کہ جو کام بَھلا یا بُرا ہوتا ہے تقدیرِ الٰہی سے ہوتا ہے اور دینی و دنیوی معاملات میں تدبیر اختیار کرنا بہترین طریقہ ہے ، اسی حوالے سے ایک سُوال کے جواب میں سیّدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے جو رِسالہ بنام “ اَلتَّحْبِیْرُ بِبَابِ التَّدْبِیْر “ تصنیف فرمایا اس میں بے شمار آیاتِ قراٰنیہ کے علاوہ چالیس احادیثِ طیبات سے بھی اس رسالہ کو مزین فرمایا ہے۔
(2)ہم گناہ گاروں کے لئے بارگاہِ خداوندی سے یہ رحمت و کرامت ہے کہ بروزِ قیامت نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمارے شفیع (سفارشی) ہوں گے ، سیّدی اعلیٰ حضرت نے شفاعتِ نبوی کے ثبوت اور اس کی مختلف اقسام پر مشتمل رِسالہ بنام “ اِسْمَاعُ الْاَرْبَعِیْن فِی شَفَاعَۃِ سَیِّدِ الْمَحْبُوْبِیْن “ تصنیف فرمایا جو چالیس احادیث پر مشتمل ہونے کی بنا پر اربعین کی حیثیت رکھتا ہے۔
(3)شریعتِ اسلامیہ میں غَیرُاللہ کے لئے سجدۂ تعظیمی ناجائز ہے خود حدیثِ مبارکہ سے اس کی ممانعت ثابت و واضح ہے ، اس موضوع پر جب خامۂ رضویہ احادیث ذکر کرتے ہوئے جوش پر آتا ہے تو پوری اربعین تیار ہو جاتی ہے جس کا نام “ اَلزُّبْدَۃُ الزَّکِیَّۃ لِتَحْرِیْمِ سُجُوْدِ التَّحِیَّۃ “ ہے۔
اربعینات کے علاوہ دیکھا جائے تو سیّدی اعلیٰ حضرت مختلف فتاویٰ میں اپنی تائید میں بعض اوقات درجنوں احادیث ذکر کر جاتے ہیں جو کہ ذخیرۂ احادیث پر آپ کی علمی مہارت کا روشن ثبوت ہے جیسا کہ
(4)سیّدی اعلیٰ حضرت کے استادِ گرامی حضرت مولانا غلام قادر بیگ رحمۃ اللہ علیہ کی معرفت اعلیٰ حضرت کے پاس ایک سُوال آیا کہ بعض لوگ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے افضلُ الْمُرسلین ہونے کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قراٰن و حدیث سے دلیل لاؤ ، اس کے جواب میں سیّدی اعلیٰ حضرت نے فرمایا : حُضور پُرنور سیّدُالمرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا افضلُ الْمُرسلین سیّدُ الاَوّلین و الآخرین ہونا قطعی ، ایمانی ، یقینی ، اِذْعانی ، اِجماعی ، اِیقانی مسئلہ ہے جس میں خلاف نہ کرے گا مگر گمراہ بددین بندۂ شیاطین۔ پھر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ کو 100 احادیث کے ذریعے روشن و واضح فرمایا اور اس تصنیف کا نام “ تَجَلِّی الْیَقِیْن بِاَنَّ نَبِیَّنَا سَیِّدُ الْمُرْسَلِیْن “ رکھا۔
(5)حُضور نبیِّ کریم علیہ افضل الصَّلٰوۃ والتَّسلیم کو بے شمار دیگر فضائل کے ساتھ یہ شرف بھی حاصل ہے کہ آپ خاتَم المرسلین و النبیین ہیں ، سیّدی اعلیٰ حضرت نے جب منکرینِ ختمِ نبوت کی جعل سازیوں اور فتنوں کی بیخ کَنی کا ارادہ فرمایا تو اس موضوع پر “ جَزَآءُاللہِ عَدُوَّہٗ بِاِبَآئِہٖ خَتْمَ النُّبُوَّۃ “ نامی تصنیف رقم فرمائی جس میں دیگر دلائل کے علاوہ ایک سو اکیس احادیثِ طیبات بھی درج ہیں۔
(6)بمطابق حدیث عمامہ پہن کر پڑھی جانے والی نماز بغیر عمامے کے پڑھی گئی نماز سے ستر گنا افضل ہے ، حضرت وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ نے جب اس حدیث مبارکہ کے متعلق دریافت کیا تو امامِ با کمال نے عمامہ کی برکات ، فضیلت اور اہمیت پر بیس احادیثِ طیبات ذکر فرما دیں۔
(7)اس کے علاوہ مختلف مقامات پرتخلیقِ ملائکہ کے عنوان پر 24 احادیث ، معانَقہ (یعنی گلے ملنے)کے ثبوت پر 16 احادیث ، داڑھی کی ضرورت و اہمیت پر 56 احادیث ، والدین کے حقوق پر 91 احادیث اور تصویر کے ناجائز ہونے پر 27 احادیث بطورِ دلیل ذکر فرمائیں۔ اس تعداد اور مزید سیّدی اعلیٰ حضرت کی تصانیف کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح اور روشن دکھائی دیتی ہے کہ دیگر علوم و فنون کی طرح سیّدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو علمِ حدیث پر بھی کامل دسترس حاصل تھی۔
کھل گیا باغ سنت و تفسیر فقہ احناف پھر ہوئی مقبول
پا گئے تازگی علوم و فنون تجھ سے اے جامع فروع و اصول
اللہ پاک ہمیں بھی اس گلشنِ علم و کمال سے پھول چنتے ہوئے اُمّتِ مسلمہ کی راہنمائی اور اصلاح کا فریضہ سرانجام دیتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments