اسلامی عقائد و معمولات
شِرک کیا ہے؟(قسط: 1)
* محمد عدنان چشتی عطّاری مدنی
ماہنامہ صفر المظفر1442ھ
سابقہ انبیائے کرام علیہمُ السَّلام کی شریعتوں میں بعض چیزیں ایسی گزری ہیں کہ جن میں سے ایک چیز ایک شریعت میں جائز ہوتی جبکہ وہی چیز دوسری شریعت میں منع و حرام ہوا کرتی تھی لیکن شِرک ایک ایسا گھناؤنا فعل ہے کہ جو کسی ایک شریعت میں بھی ایک لمحے کے کروڑویں حصے کے لئے بھی جائز قرار نہیں دیا گیا۔جائز قرار بھی کیسے دیا جا سکتا تھا کہ شِرک تو اَکْبَرُ الْکَبَائر (کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ) ہے۔
شِرک کی تباہ کاریاں:شرک ایمان کی ضِد ہے۔ جیسے اندھیرا اُجالا، رات دن ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے ایسے ہی شرک اور ایمان اسلام کی چَھتری کے نیچے ہرگز ہرگز جمع نہیں ہو سکتے۔ تمام انبیائے کرام علیہمُ السَّلام شرک کی مذمت بیان کرتے آئے ،اولیا و صالحین نے بھی اس کی ہو لناکی کو بیان فرمایا جیسا کہ حضرت حکیم لقمان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے کو یوں نصیحت فرمائی چنانچہ قراٰن پاک میں ہے:( یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِﳳ-اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ(۱۳) ) تَرجَمۂ کنزُ الایمان:اے میرے بیٹے اللہ کا کسی کو شریک نہ کرنا۔ بےشک شرک بڑا ظلم ہے۔([i]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
شرک ایسی بیماری ہے کہ جو بندے پر جنّت کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کروا دیتی ہے اور دوزخ کو دائمی ٹھکانا بنا دیتی ہے جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:( اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُؕ-وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ(۷۲)) تَرجَمۂ کنزُالایمان:بے شک جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو اللہ نے اس پر جنّت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔([ii]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
مُشرک کا بدترین انجام: قراٰن پاک میں مشرک کے انجام کو ایک مثال کے ذریعے واضح کیا گیا ہے کہ جو شخص کسی بلند و بالا مقام سے زمین پر گر پڑے تو پرندے اس کی بوٹی بوٹی نوچ کر لے جاتے ہیں یا پھر ہَوا اُس کے اَعضا کو علیحدہ علیحدہ کر کے دور کسی وادی میں پھینک دیتی ہے اور یہ ہلاکت کی عبرت نا ک اور بد ترین صورت ہے۔ اسی طرح جو شخص ایمان کے بعد شرک کرتا ہے تو وہ ایمان کی بلندی سے کفر کی وادی میں گِر پڑ تا ہے پھر بوٹی بوٹی لے جانے والے پرندے کی طرح نفسانی خواہشات اس کی فکروں کو مُنتَشِر کر دیتی ہیں یا ہَوا کی طرح آنے والے شیطانی وسوسے اسے گمراہی کی وادی میں پھینک دیتے ہیں یوں مشرک اپنے آپ کو بد ترین ہلاکت میں ڈال دیتا ہے۔چنانچہ قراٰنِ پاک میں ہے: (وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّیْرُ اَوْ تَهْوِیْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ مَكَانٍ سَحِیْقٍ(۳۱)) تَرجَمۂ کنزُ الایمان: اور جو اللہ کا شریک کرے وہ گویا گرا آسمان سے کہ پرندے اُسے اُچک لے جاتے ہیں یا ہَوا اُسے کسی دور جگہ پھینکتی ہے۔([iii]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
شرک نہ کرو : ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یوں نصیحت فرمائی:
لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِ شَيْئًا وَاِنْ قُتِلْتَ وَحُرِّقْتَ یعنی اللہ کے ساتھ کسی شے کو شریک نہ ٹھہرا اگرچہ تجھے قتل کر دیا جائے یا جلا دیا جائے۔([iv])
شرک کی تعریف: لغت کی مشہور کتاب لِسانُ الْعَرَب میں ہے: واَشْرَکَ بِاللّٰہِ: جَعَلَ لهُ شَرِيکاً فی مُلْکهِ، تَعَالی اللہُ عَنْ ذالِک۔۔، وَالشِّرْکُ اَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہ شَرِِيْکاً فِیْ رُبُوْبِيَّتِهٖ، تَعَالیَ اللہُ عَنِِ الشُّرَکَاءِ وَالْاَنْدَادِ۔۔، لِاَنّ اللہ وَحْدَهُ لا شَرِيْکَ له وَلَا نِدّ لهُ ولا نَدِيْد یعنی جب اَشْرَکَ بِاللّٰہِ (اُس نے اللہ پاک سے شرک کیا) کہا جائے تو اس کا معنی ہوتا ہے:اُس نے کسی اور کو اللہ پاک کے مُلک میں شریک بنا دیا حالانکہ اللہ کریم اس سے بلند و برتر ہے۔ شرک کے معنی یہ ہیں کہ اللہ پاک کے رب ہونے میں کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اللہ کریم کی ذات شریکوں اور ہمسروں سے پاک ہےکیونکہ اللہ پاک واحد ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں، نہ اس کی کوئی نظیر ہے اور نہ ہی کوئی مثل۔([v])
دینی مدارِس میں سبقاً پڑھائی جانے والی عقائد کی مشہور کتاب”شَرح عقائدِ نَسْفِیہ“ میں حضرت علّامہ سعدُالدّین تَفتازانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتےہیں: اَلْاِشْراک هُوَ اِثبَاتُ الشَّريکِ فِی الاُلُوهِيةِ، بِمَعنَی وُجُوِبِِ الْوُجُودِ کَمَا لِلْمَجُوسِِ اَو بِمَعْنیَ اِسْتِحْقَاقِ العِبَادَةِ کَمَا لِعَبَدَةِ الْاَصْنَام یعنی مجوسیوں(آگ کی عبادت کرنے والوں) کی طرح کسی کو واجب الوجود جان کر اُلُوہیت میں شریک کرنا یا بُت پرستوں کی طرح کسی کو عبادت کا حقدار سمجھنا شرک کرنا کہلاتا ہے۔([vi])
حضرت امام سعدُالدّین تَفتازانی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ شرک کے لئے تین صورتوں میں سے کسی ایک کا پایا جانا ضروری ہے:(1)غیرِ خُدا کو وَاجبُ الْوُجود ماننا (یعنی جس کا ہونا ضروری اور نہ ہونا محال ہو) اگرچہ عبادت کے لائق نہ سمجھے یہ شرک ہے (2)غیرِ خدا کو عبادت کا مستحق سمجھنا اگرچہ واجبُ الوُجود ہونے کا عقیدہ نہ رکھے (3)غیرِ خدا کو واجبُ الوُجود بھی مانے اور اسے عبادت کا مستحق بھی سمجھے۔
ان تین صورتوں میں سے کوئی ایک بھی پائی گئی تو شرک پایا جائے گا، اگر ان میں سے کوئی ایک صورت بھی نہ پائی جائے تو ایسی صورت شرک کے علاوہ کچھ بھی ہو سکتی ہے۔
کیا کفّارِ مکہ مُشرک تھے؟خبردار! کسی ذہن میں یہ بات ہرگز نہ آئے کہ کفّارِ مکہ تو اپنے جُھوٹے خداؤں کو واجبُ الوُجود نہیں مانتے تھے پھر وہ مشرک کیسے؟ اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ صرف واجبُ الوُجود ماننا ہی شرک نہیں بلکہ غیرِ خدا کو مستحقِ عبادت سمجھنا بھی شرک ہے جیسا کہ (شرح عقائد کی) عبارت سے واضح ہے۔کفّارِ مکہ اپنے جھوٹے خداؤں کو عبادت کا مستحق جان کر اُن کی پُوجا کیا کرتے تھے جیسا کہ قراٰنِ پاک میں ہے: (وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ هٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِؕ-) تَرجَمۂ کنزُ الایمان: اور اللہ کے سوا ایسی چیز کو پوجتے ہیں جو ان کا نہ کچھ نقصان کرےاورنہ کچھ بھلا اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے یہاں ہمارے سفارشی ہیں۔([vii]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) مشرکین بتوں کی عبادت بھی کرتے تھے اور انہیں اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنا شفیع بھی مانتے تھے۔گویا ان کے دو جُرم تھے:(1)غیرِ خُدا کو مستحق ِ عبادت سمجھنا (2)اللہ پاک کی بارگاہ میں انہیں مُقَرَّب سمجھنا جو کہ مقرب ہرگز نہیں ہیں۔ اس لئے بلا شبہ کفارِ مکہ مشرک تھے۔
(شِرک کی اقسام اور مفید معلومات جاننے کے لئے آئندہ شمارے میں قسط 2 بعنوان ” شرک کی اقسام اور اس کی صورتیں “ مطالعہ فرمائیے۔)
تلفظ درست کیجئے
غلط الفاظ صحیح الفاظ
اَرْشاد اِرْشاد
اِنتَخاب/اَنتَخاب اِنْتِخاب
اِنْتَقام/اَنْتَقام اِنْتِقام
اِنْفَرادی اِنْفِرادی
اَلْحاق اِلْحاق
(اردو لغت،جلد1)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* رکنِ مجلس المدینۃالعلمیہ کراچی
Comments