ننھے میاں کی کہانی
کلر پنسل باکس
* ابو عبید عطاری مدنی
ماہنامہ صفر المظفر1442ھ
ننّھے میاں! آپ ابھی تک اپنے کھلونوں سے کھیل رہے ہیں اور دیکھئے آپ کی چھوٹی بہن بانو کب سے ہوم ورک کررہی ہے۔ کیا آپ نے اپنا ہوم ورک کرلیا؟ امّی نے شام کے وقت ننھے میاں سے پوچھا تو ننھے میاں کہنے لگے : امّی! بس تھوڑی دیر اور کھیلنے دیں۔ امّی نے کہا : اپنے ابو کے آنے سے پہلے ضرور مکمل کرلیجئے گا ورنہ وہ ناراض ہوں گے۔ ننّھے میاں کہنے لگے : امّی! آج ویسے بھی صرف ڈرائنگ کا ہوم ورک ملا ہے ، میں 15 منٹ میں کرلوں گا۔
تھوڑی دیر بعد ننھے میاں ڈرائنگ کاپی میں کلر کرنے بیٹھے تو بیگ میں کلر پنسل بکس نہیں تھا ، ننھے میاں نے امّی سے پوچھا : امّی! میرا کلر پنسل بکس کہاں گیا؟ میں نے کل اپنے کمرے میں رکھا تھا۔ امّی نے کہا : اس وقت وہ بانو کے پاس ہے وہ کلر کررہی ہے ، ننّھے میاں کو تو جیسے غصّہ آ گیا کہنے لگے : بانو کیوں کر رہی ہے؟ وہ تو میرا کلر بکس تھا اور یہ کہہ کر سیدھا دادی کے کمرے میں پہنچ گئے اور کہنے لگے : دادی دیکھئے نا! بانو میرے کلر پنسل استعمال(Use) کررہی ہے۔ پیچھے پیچھے امّی کمرے میں آگئیں اور کہنے لگیں : ننھے میاں! آپ کو یاد نہیں کہ آپ کے ابو اس دفعہ صرف ایک کلر بکس لائے تھے اور کہا تھا کہ یہ آپ اور بانو دونوں کے لئے ہے ، جب بانو اپنا کام ختم کرلے تو آپ لے لینا۔ دادی نے امّی کی بات سُن کر کہا : بیٹا! جب کلر بکس آپ دونوں کا ہے تو تھوڑی دیر بعد آپ لے لینا ، اس میں ناراض ہونے کی کیا بات ہے؟ ننّھے میاں نے کہا : دادی مجھے تو ابھی ضرورت ہے بعد میں لے کر کیا کروں گا؟ دادی نے ننھے میاں کو سمجھاتے ہوئے کہا : بیٹا! اللہ پاک کے نیک اور پیارے بندوں کے پاس جب کوئی چیز ہوتی اور وہ یہ دیکھتے کہ کسی مسلمان بھائی کو اس چیز کی زیادہ ضرورت ہے تو وہ اپنی چیز اس ضرورت مند کو دے دیا کرتے تھے۔ مسلمانوں کے ایک بہت بڑے عالمِ دین امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ گزرے ہیں انہیں اعلیٰ حضرت کہا جاتا ہے ، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نماز پابندی سے جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھا کرتے تھے ، بارش کے دن تھے ، کسی صاحب نے یہ سوچا کہ اعلیٰ حضرت کو بارش کی وجہ سے مسجد آنے میں تکلیف ہوتی ہے لہٰذا ان صاحب نےایک چھتری(Umbrella) خریدی اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ کو گفٹ کردی جب نماز کا وقت آتا تو وہی صاحب آجاتے ، چھتری کھولتے اور اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے سَر کے اُوپر رکھتے ہوئے انہیں مسجد تک لے جاتے اور نماز کے بعد پھر چھتری اوپر رکھتے ہوئے انہیں گھر تک لے آتے اس طرح اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو بڑی آسانی ہوجایا کرتی تھی ، ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک ضرورت مند نے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے چھتری مانگ لی ، اعلیٰ حضرت نے فوراً وہ چھتری ان صاحب سے لے کر اس ضرورت مند کو دے دی۔ (فیضانِ اعلیٰ حضرت ، ص177 مفہوماً)
اب بتاؤننّھے میاں! اچّھے اور نیک لوگ تو اپنی ضرورت کی چیز بھی دوسروں کو دے دیتے تھے اور آپ ہیں کہ اپنی چھوٹی بہن کو بھی کلر پینسل استعمال نہیں کرنے دے رہے۔ ننھے میاں دادی کی باتیں خاموشی کے ساتھ سُن رہے تھے اور لگ رہا تھا کہ انہیں اپنی غلطی (Mistake) کا احساس ہوگیا ہے۔
دادی کہہ رہی تھیں : ننّھے میاں! اگر آپ کو اچّھا اور نیک بچّہ بننا ہے تو اچّھے اور نیک لوگوں کے راستے پر چلنا پڑے گا ، اور بُری عادتیں ختم کرنا ہوں گی ، دادی کی باتیں ختم ہوئیں تو ننھے میاں کہنے لگے : ٹھیک ہے دادی! اب ہر مرتبہ کلر پنسل پہلے بانواستعمال کرے گی اور پھر میں۔ دادی نے ننھے میاں کی بات سُن کر کہا : ویسے! اس کا ایک حل یہ بھی ہے کہ آپ بانو کے قریب بیٹھ جائیں اور جس کلر کی ضرورت ہو وہ کلر اس سے لے لیں اور جب اسے ضرورت ہو تو وہ کلر اسے واپس دے دیں۔ ارے واہ دادی! یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں اب تو میں ایسا ہی کروں گا۔ ننّھے میاں نے خوش ہوکر کہا اور اپنی ڈرائنگ بُک لے کر بانو کے قریب بیٹھ گئے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments