فرمانِ مصطفےٰ صلَّی
اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم: جسے یہ بات پسند ہو کہ وہ صورت و سیرت میں حضرت عیسیٰ علیہِ
السَّلام کے مِثْل کو دیکھے تو وہ ابو ذَر کو دیکھ لے۔ (معجم کبیر،ج 2،ص149، حدیث: 1626) میٹھے میٹھے اسلامی
بھائیو! زُہدو تقویٰ میں بے مثل، علم و عمل میں یکتا، حضرتِ سیدنا جُنْدُب بن جُنَادہ
ابو ذر غِفاریرضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا شمار نہایت جلیلُ
الْقَدْر
صحابۂ کرام علیہِمُ الرِّضْوَان میں ہوتا ہے، آپ رضیَ
اللہُ تعالٰی عنہ وعدہ نبھاتے، وَصِیّت پوری فرماتے، لوگوں سے بلا ضرورت میل
جول رکھنے سے کتراتے، حق بات بیان کرنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف
زدہ نہ ہوتے اور نہ ہی حکمرانوں اور بادشاہوں کے رُعب و دبدبہ سے گھبراتے، ہر طرح
کی مَشَقّتوں اور تکلیفوں میں بھی دین پر ثابت قدم رہے۔ (حلیۃ الاولیاء،ج1،ص210) شوقِ عبادت قبولِ اسلام سے پہلےتین سال
تک رات بھرکھڑے ہوکر خدائے واحد کی عبادت کرتے رہے یہاں تک کہ رات کے آخِری حصّے میں (تھک کر) زمین پر گِرجاتے۔ (مسلم، ص1030، حدیث: 6359) قبولِ اسلام و ہجرت ایک روایت کے مطابق نورِ
اسلام کی کرنیں مکہ کی وادیوں سے نکل کر
قبیلۂ غِفار تک پہنچیں تو آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ مکہ پاک حاضر ہوگئے لیکن کسی سے حضورِ اکرم صلَّی
اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے بارے میں پوچھ نہ
سکے۔ حضرت سیّدنا علی المرتضیٰکَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجہَہُ الْکریم
آپ کو
مسافر خیال کرکے گھر لائے (اور مہان نوازی کی)، اگلے دن پھر گھر لائے اور
فرمایا: اس شہر میں آنے کا کیا مقصد ہے؟ آپ نے دل کا حال بیان کیا تو حضرت سیّدنا علیُّ
المرتضیٰکَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجہَہُ الْکریم نے فرمایا: میرے پیچھے چلے آئیے، راستے میں کسی نے دیکھا
اور خطرے کی کوئی بات ہوئی تومیں دیوار کی طرف رُخ کرلوں گا جیسے جوتا درست کررہا ہوں
اور آپ آگے بڑھ جائیے گا، اس طرح آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور اسلامی طریقے کے مطابق رسولُ اللہ صلَّی
اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کو سلام پیش
کرنے کی سب سے پہلے سعادت پائی، قبولِ اسلام کے بعد کفار و مشرکین کی جانب سے اَذِیّتیں
برداشت کیں۔ (بخاری،ج 2،ص 480، حدیث:3522 ملخصاً، مسلم، ص1030، حدیث: 6359) آخر کار اپنے قبیلے
میں لوٹ آئے، پھر غزوۂ خندق کے بعد ہجرت کرکے مدینے تشریف لائے اور اَہلِ صُفّہ میں شامل ہوگئے۔ (طبقات ابن سعد،ج 4،ص170،ج 1،ص197) بارگاہِ رسالت میں مقام آپ رضیَ
اللہُ تعالٰی عنہ جانِ عالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی خدمت گزاری کے فرائض سَر اَنجام دیتے تھے،
فارغ ہوتے تو مسجد میں آجاتے اور یہیں آرام کرتے۔ (مسند احمد،ج 10،ص440، حدیث: 27659) رسولُ
اللہ صلَّی
اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم سے ملاقات کا شرف پاتے
تو سیّدِ عالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم آپ سے مصافحہ ضرور فرماتے۔ (مسند الطیالسی، ص64، حدیث: 473) آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوتے (اور کوئی چیز تقسیم کرنا ہوتی) توآپ سے ابتدا کی
جاتی اور جب آپ موجود نہ ہوتے تو آپ کو تلاش کروایا
جاتا۔ (تاریخ ابن عساکر،ج 66،ص187) رحمتِ عالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے اپنے آخری لمحات میں آپ رضیَ
اللہُ تعالٰی عنہ کو بُلوایا،آپ بارگاہِ نبوی میں پہنچے تو والہانہ انداز
میں اپنے محبوب آقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے اوپر جُھک گئےسیّدِ عالم صلَّی
اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے بھی آپ کا ہاتھ اپنے
جسم ِاَطْہر کے ساتھ چمٹالیا۔(مسند
احمد،ج 8،ص 101، حدیث: 21499) غصّے پر غصّہ ایک مرتبہ آپ رضیَ
اللہُ تعالٰی عنہ کے ایک غلام نے آپ کی بکری کی ٹانگ توڑ دی، آپ رضیَ
اللہُ تعالٰی عنہ نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا: میں آپ کو غصّہ دلانا چاہتا تھا
تاکہ آپ مجھے مارکر گناہ گار ہوں، فرمایا: جس نے تمہیں اس کام پر اُبھارا (یعنی شیطان)میں اسے ناراض کروں گا
پھر آپ نے غلام کو آزاد فرمادیا۔ (تاریخ
ابن عساکر،ج 66،ص211) درہم و دینار جمع نہ رکھتے سونا چاندی اپنے پاس جمع رکھنا آپ رضیَ
اللہُ تعالٰی عنہ کو سخت ناپسند تھا، ایک مرتبہ حضرت سیّدنا امیرمعاویہ رضیَ
اللہُ تعالٰی عنہ نے امتحاناً آپ کے پاس رات کے وقت ایک ہزار
دینار بھجوائے آپ نے سارے دینار صبح ہونے سے پہلے صَدَقہ کردئیے۔ (سیراعلام النبلاء،ج 3،ص393) امیر کیوں بنوں؟ ایک دفعہ کسی نے آپ سے پوچھا: آپ دوسروں کی طرح اپنی
جائیداد کیوں نہیں بناتے؟ ارشاد فرمایا: مجھے امیر بننے کی خواہش نہیں ہے۔ (الزہد لاحمد، ص171) دنیا سے بے رغبتی ایک شخص نے آپ رضیَ
اللہُ تعالٰی عنہ کے پاس حاضر ہوکر کچھ مال پیش کیا تو آپ نے
فرمایا: میرے پاس دودھ کے لئے ایک بکری، سُواری کے لئے گدھا، خدمت کے لئے بیوی ہے
اور ایک
چادر ضرورت سے زائد ہے جس کی وجہ سے خوف زدہ ہوں کہ کہیں مجھ سے اس کا حساب نہ لے
لیا جائے۔ (معجم کبیر،ج 2،ص150، حدیث: 1631) آزمائشوں پر خوشی ایک مرتبہ رحمتِ عالم صلَّی
اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے ارشاد
فرمایا: اے ابو ذر! تم نیک آدمی ہو، عنقریب میرے بعد تم پر آزمائشیں آئیں گی، آپ نے عرض کی: راہِ خدا کی آزمائشیں؟ ارشاد فرمایا: راہِ خدا
میں،عرض کی: حکمِ الٰہی کو خوش آمدید۔ (تاریخ
ابن عساکر،ج 66،ص192) تنہائی پسند غزوۂ تبوک کے سفر
میں آپ سب سے الگ چل رہے تھے۔ یہ دیکھ کر جان ِ عالم صلَّی
اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے فرمایا: اے
ابو ذر! تم تنہا چلو گے، تنہا مروگے اور تنہا ہی اُٹھائے جاؤ گے۔ (مغازی للواقدی،ج 3،ص1000) سیّدِ عالم صلَّی
اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے جو فرما دیا
وہی ہوکر رہا چنانچہ نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی وفاتِ ظاہری کے بعد آپ نے شام کے ایک گاؤں
میں مستقل رہائش اختیار کرلی پھر حضرت سیّدنا عثمانِ غنی رضیَ
اللہُ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں دِمَشْق چلے آئے اور وعظ و نصیحت
کا سلسلہ جاری رکھا، زندگی کے آخِری اَیّام مدینے کے گِردو نواح میں موجود مقام
”رَبْذَہ“ میں گزارے۔ (اعلام للزرکلی،ج 2،ص140) فرمانِ مصطفےٰ پر یقین حضرت سیّدنا ابو ذر
غفاری رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا وِصال مبارک سِن 32 ہجری میں ہوا، بوقتِ وصال
اَہلیہ محترمہ حضرت سیّدتنا اُمِّ ذَررضیَ اللہُ تعالٰی عنہَا رونے لگیں تو پوچھا: کیوں رورہی ہو؟ عرض کی: میرے
پاس اتنا کپڑا نہیں ہے کہ آپ کو کفن دے سکوں،آپ نے فرمایا: ایک مرتبہ ہم چند افراد
سے رسولُ اللہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے ارشاد فرمایا: تم لوگوں میں سے ایک شخص کی موت ویرانے میں ہوگی اور اس
کے جنازے میں مسلمانوں کی ایک جماعت حاضر ہوگی۔ پھر آپ رضیَ
اللہُ تعالٰی عنہ نے فرمایا: اس وقت وہاں موجود تمام لوگ کسی نہ
کسی شہر یا گاؤں میں انتقال کرچکے ہیں اب میں ہی ان میں سے باقی ہوں اور مجھے
یقین ہے کہ میں ہی وہ شخص ہوں، لہٰذا اب تم باہر جاکر دیکھو مسلمانوں کی کوئی نہ
کوئی جماعت ضرور آتی ہوگی۔ حضرت اُمِّ ذر رضیَ اللہُ تعالٰی عنہَا باہر راستے پر انتظار کررہی تھیں کہ ایک قافِلے کے آثار
نظر آئے۔ قافلہ قریب آیا تو حضرت اُمِّ ذَر رضیَ
اللہُ تعالٰی عنہَا نے فرمایا: ایک مسلمان اپنی آخری سانسیں لے رہا
ہے تم اس کے کفن دفن کا بندوبست کرو، قافلے والوں نے پوچھا: وہ کون ہے؟ فرمایا: صحابیِ
رسول حضرت ابو ذر غفاری، یہ سُنتے ہی قافلے والے بےچین و بےقرارہوگئے اور بے
تابانہ آپ کے پاس پہنچے، آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے انہیں چند وصیتیں کیں اور اپنی جان جانِ آفرین
کے سپرد کردی۔ ایک قول کے مطابق اس قافلے میں موجود صحابیِ رسول حضرت عبدُ
اللہ بن مسعود رضیَ
اللہُ تعالٰی عنہ نے آپرضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ (اسد الغابہ،ج 1،ص442 ملخصاً) آپ رضیَ
اللہُ تعالٰی عنہ نے281 احادیث کے مہکتے پھول اُمّتِ مُسلِمہ تک پہنچائے ہیں۔ (تہذیب الاسماء،ج2،ص513)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مدرس جامعۃ المدینہ،عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی
Comments