اِرشادِ
باری تعالیٰ ہے:(اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(۳۰)) ترجمہ: بے شک جنہوں نے کہا: ہمارا رب اللہ
ہے پھر اس پر ثابت قدم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ تم نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور
اس جنّت پر خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ (پ24، حمٓ السّجدۃ :
30)
استقامت کے متعلق ہمیں یہ معلوم ہوچکا کہ اس کا حکم بھی قرآن
پاک میں دیا گیا ہے اور اس کی عظیم الشان فضیلت یعنی فرشتوں کی تائید و نصرت، جنت
کی بشارت ، خدا عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے مہمانی
اور نعمتوں کی فراوانی کا ذکر بھی قرآن میں موجود ہے۔اس کے باوجودصورتِ حال وہی ہوتی
ہے جواِس مضمون کے پہلے حصےمیں ذکر کی گئی کہ لوگ وقتی جذبات میں آکر نوافل،
تلاوت، ذکر و درود اور درس و مطالعہ سب شروع کرتے ہیں لیکن چند ہی دنوں بعد جذبات
ٹھنڈے اوراعمال غائب ہوجاتے ہیں۔ یونہی ماہِ رمضان میں یا نیک اجتماع میں یا مرید
ہوتے وقت گناہ چھوڑنے کا پختہ ارادہ کرتے ہیں اور چند دن خود کو گناہوں سے بچا بھی
لیتے ہیں لیکن تھوڑے دنوں بعد وہی گناہوں کا بازار گرم ہوتا ہے اورسر سے پاؤں تک
گناہوں میں لتھڑے ہوتے ہیں۔ یہاں یہ سوال ہوتا
ہے کہ استقامت پانے کا طریقہ کیا ہے؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ کچھ امور وہ ہیں
جو ایمان، نیک اعمال اور گناہوں سے اجتناب وغیرہا ہر طرح کے معاملات میں
استقامت پانے کےلئے مشترک اور برابر معاون ہیں، اس مضمون میں اُنہی کا بیان کیا
جائے گا۔
استقامت کےلئے
معاون امورمیں سب سے پہلی چیزنیکی
کرنے اور برائی سے بچنے کا ذہن ہے۔ اگر کسی کے دل و دماغ میں یہ سوچ ہی موجود نہیں
تو استقامت تو دور کی بات ہے اسے تو کچھ کرنے ہی کی توفیق نہیں ملے گی، مثلاً
تلاوت ِ قرآن کرنے یا گانے سننے سے بچنے کا ذہن ہوگا تو اگلا مرحلہ شروع ہوگا یعنی
تلاوت کرے گا اور گانوں سے بچے گا لیکن اگریہ ذہن ہی نہیں تو کہاں کی استقامت اور
کہاں کی ہمت! اب یہ سوال کہ ایسی سوچ کس طرح پیدا ہو؟ تو جواب یہ ہے کہ مطلوبہ سوچ
بنانے کےلئے اپنے دعوی ِ ایمان، خدا کا بندہ ہونے، کلمۂ طیبہ پڑھنے اور موت و
آخرت پر غور کرنے کی حاجت ہے کہ میرا کلمہ پڑھنا، دعویِ ایمان کرنا، خدا کا بندہ
ہونا، یقینی موت کا شکار ہونا اورقیامت میں بارگاہِ خداوندی میں حساب کےلئے پیش
ہونا کس بات کا تقاضا کرتا ہے۔ اس پر مسلسل غور و فکر نیکیوں کی رغبت اور گناہوں
سے نفرت پیدا کرے گی ۔
استقامت پانے کےلئے دوسری اہم چیز ہمت ہے۔ ہمت میں ایک پہلو طبعی ہوتا
ہے کہ بعض لوگ پیدائشی طور پر بہادر اور بلند ہمت ہوتے ہیں، ان کی قوت ِ ارادی اور
عزم کی پختگی بہت بلند ہوتی ہے جبکہ بہت سے لوگ ایسے نہیں ہوتے لیکن یہ ہرگز نہیں
ہوتا کہ خداوند ِ کریم کسی کو اصلاً ہمت و قوتِ ارادی نہ دے۔اُس نے یہ دولت کم و بیش
سب کو دی ہے۔ اب جن میں بلند ہمتی ہے وہ بھی اگر اسے استعمال نہیں کریں گے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا جبکہ جن میں قوتِ ارادی
کی کمی ہے وہ بھی اگر کوشش کریں گے تو کامیاب ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو
ان کی طاقت سے زیادہ احکام نہیں دیتا اور لوگوں کی کوششوں کے مطابق ہی انہیں صِلہ عطا فرماتا ہے۔
اس ساری
گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کےلئے اگر انسان
اپنی ہمت بروئے کار لائے اور نفس و شیطان سے مقابلے کے وقت ہاتھ پاؤں چھوڑ کر نہ بیٹھ
جائے تو شیطان کو شکست دینا مشکل نہیں ہوتا۔ مثلاً فجر کی نماز کےلئے نیند اور
بستر چھوڑنا، ظہر و عصر کےلئے دفتر یا دکان سے اُٹھ کر جانے میں کوئی ہمیں پکڑ کر
لِٹایا بِٹھا نہیں دیتا ، یہ ہم ہی ہوتے ہیں جو اپنی مرضی سے لیٹے یا بیٹھے رہتے ہیں،
اس کے برعکس جو لوگ عزم کرچکے ہوتے ہیں کہ دنیا اِدھر سے اُدھر ہوجائے یا زمین و
آسمان آپس میں بدل جائیں ہمیں کسی صورت نماز قضا نہیں کرنی تو ایسے لوگ بغیر تکلیف
اور تکلّف کے سب آرام و کام چھوڑ کر نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کر لیتے ہیں۔ یہی
معاملہ گناہوں کا ہے کہ جب کوئی گناہ چھوڑنے کاوقت آئے تو عزم و ہمت ہی گناہوں سے
بچنے میں معاون بنتے ہیں مثلاً بدنگاہی کا موقع آئے توبچنا ناممکن نہیں ہوتا بلکہ
یقیناً ہماری قدرت میں ہوتا ہے لیکن لذت ِ نفس کے ہاتھوں مجبورہم اِس کا ارتکاب
کربیٹھتے ہیں حالانکہ یہ مجبور ہونا اپنی ہی کوتاہی اور کمزوری ہے کیونکہ دوسری
طرف ہزاروں وہ لوگ بھی موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ کسی خوب صورت عورت یا اَمرد کو دیکھنے
میں نفس کو کتنا ہی مزہ کیوں نہ آئے اور نفس کتنا ہی کیوں نہ چیخے چلائے اور ہائے
ہائے کرے ، ہم نفس کی خواہش پوری نہیں کریں گے اگرچہ ہماری روح ہی کیوں نہ نکل
جائے۔ اِس عزم و ہمت کے ساتھ جو لوگ بدنگاہی یا کسی بھی گناہ سے بچنا چاہتے ہیں ان
کےلئے گناہ سے بچنا نہایت آسان ہوجاتا ہے۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی
ہمت کہاں سے لائیں؟ تو جواب یہ ہے کہ اُن لوگوں کےلئے یہ ہمت توبہت آسان ہے جنہیں
ماں باپ نے صحیح اسلامی تربیت دی، پھر مسجد و مدرسہ کی تعلیم و تربیت نے اُن میں
مزید نکھار پیدا کیا، پھر نیک ماحول نے اُن کی
مدنی سوچ کو چار چاند لگادئیے۔ وہ بُری صحبت سے بچے رہے اور انہوں نے خود کو گناہ
کی چیزیں دیکھنے،گناہ کی باتیں سننے اور سوچنے سے خود کو بچا کر رکھا۔ ایسے لوگ
نہایت سعادت مند، بلند ہمت اور صاحب ِ استقامت ہوتے ہیں لیکن اگر کسی کو بچپن سے
جوانی تک یہ نعمتیں میسر نہیں آئیں تو اللہ تعالیٰ نے ان سے بھی اپنا فضل و کرم موقوف نہیں کردیا بلکہ ایسے لوگ
بھی اپنی طرزِ زندگی میں کچھ تبدیلیاں پیدا کرلیں تو ان کےلئے مرتبۂ استقامت تک
پہنچنا ممکن ہے۔ مثلاً آج کے زمانے میں اگر کوئی شخص مسجد میں حاضری، نیک لوگوں کی
صحبت، ہفتہ وار اجتماع میں شرکت، بُری چیز دیکھنے، بُری بات سننے اور سوچنے سے خود
کو روک رکھے اور اچھا دیکھنے، سننے، بولنےاور سوچنے کی عادت بنانے کی کوشش کرے تو
کچھ ہی عرصےمیں اسے نیکیوں سے محبت اور گناہوں سے نفرت ہوجائے گی اور اسی کے ذریعے
استقامت کی دولت نصیب ہوجائے گی۔
یہاں مزیدتین باتیں پیشِ خدمت ہیں:ایک بات یہ ہے کہ ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ پہلی کوشش ہی میں
عموماً استقامت نہیں مل جاتی، بلکہ بار بار کوشش کرنی پڑتی ہے، اس لئے اگر کوئی نیک
عمل چھوٹ جائے یا گناہ سرزدہوجائے تو ہمت نہ ہاریں بلکہ توبہ کرکے دوبارہ کوشش کریں۔یاد
رکھیں کہ جو لوگ کوشش کرتے رہتے ہیں ، اُن کےلئے راستے کھل جاتے ہیں اور وہ مقصد
بھی پالیتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ استقامت کےلئے بُری صحبت سے
بچنا نہایت ضروری ہے۔ اگر اچھے اعمال اور اچھی صحبت کےساتھ بُری صحبت بھی جاری رہی تو استقامت ملنے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ
استقامت پانے کےلئے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے رہیں اور
دوسرے نیک لوگوں سے بھی دُعا کرواتے رہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مفتی محمد قاسم
عطاری
٭…دارالافتاءاہل سنت
عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی
Comments