ہر اِک کی آرزو ہے پہلے مجھ
کو ذبْح فرمائیں
تماشا کررہے ہیں مرنے والے عید
ِ قرباں میں
(ذوقِ نعت،ص133)
شرح: ایک مرتبہ عیدُالاضحیٰ کے موقع
پر رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جن اونٹوں کو اپنے دستِ
مُبارَک سے نَحْر فرمایا اُن میں سے ہر ایک کی یہ کوشش تھی کہ مجھے یہ شرف دوسروں
سے پہلے حاصِل ہو۔ برادرِ اَعلیٰ حضرت مولانا حسن رضا خان علیہ
رحمۃ الرَّحمٰن کے اِس شعر میں اس رِوایت کی طرف اِشارہ ہے:
حضرتِ سیّدنا عبداللہ بن قُرْط رضی
اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں پانچ یا چھ اونٹ نَحْر کرنے کے لئے
پیش کئے گئے تو وہ اپنے کوحضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آگے کرنے لگے کہ
آپ کس سے آغاز فرماتے ہیں۔(مسنداحمد،ج 7،ص40،حدیث:19097)
حکیمُ الامّت مفتی اَحمد
یار خان علیہ رحمۃ الحنَّان اِس کی شرح میں فرماتے ہیں: یعنی ہراونٹ چاہتا تھا
کہ حضور (صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلم) میری قربانی پہلے کریں اور آپ
کے ہاتھ سے ذَبْح ہونے کا شَرَف مجھے حاصل ہو، اِس لیے ہر ایک اپنی گردن پیش کرتا
تھا۔ حضور (صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلم) کی یہ محبوبیت آپ کا زندہ جاوید
معجزہ ہے، جانور بھی حضورکے ہاتھ سے ذَبْح ہوجانے کو زندگی سے بہتر جانتے ہیں۔(مراٰۃ المناجیح،ج 4،ص164ملتقطاً)
اُونٹ بن گیا ہوتا اور عیدِ
قُرباں میں
کاش! دستِ آقا سے نَحْر ہوگیا
ہوتا
(وسائل ِ بخشش،ص 158)
ایک
اُونٹ کی حکایت: ایک
اَنصاری بارگاہِ رسالت میں حاضرہوکر عرض گزار ہوئے: یارسولَ اللہ!
ہمارے یہاں ایک اونٹ ہے جومشتعل ہے اور کسی میں اِتنی طاقت نہیں کہ اُس کے قریب
جاکر نَکیل ڈال سکے۔ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُس مقام پر پہنچ
کر دروازہ کھولا، اُونٹ نے جیسے ہی آپ کو دیکھا قدموں میں حاضِر ہوکرسجدہ کیا اور
اپنی گردن زمین پر رکھ دی۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے اُونٹ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اُسے نکیل ڈال
کرمالک کے حوالے کردیا۔ (یسسسسسہ منظر دیکھ کر) شیخین کریمین (یعنی
ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ
تعالٰی عنہما)
نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! اُونٹ
پہچان گیا کہ آپ اللہ
کے نبی ہیں۔ سرکارِ نامدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا: کافر
انسان و جنّات کے علاوہ ہر چیز پہچانتی ہے کہ میں اللہ کا رسول
ہوں۔(الخصائص
الکبریٰ،ج2،ص96)
مَلائک اِنس و جن کیا جانور بھی
ہوگئے شیدا
ہوئے سنگ و شجر گویا تِری تسخیر
کے قُرباں
(قبالۂ بخشش،ص121)
Comments