حضرتِ سیّدتنا صفیہ بنتِ عبد المطلب رضی اللہ تعالٰی عنہما رشتے میں پیارےآقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پھوپھی، سیّدالشّہداء حضرتِ سیّدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سگی بہن اور عشرۂ مبشرہ میں سے حضرتِ سیّدنا زبیر بن عوام رضی اللہ تعالٰی عنہ کی والدۂ ماجدہ ہیں۔ آپ حسب، نسب اور خاندانی شرف کے اعتبار سے اہلِ عرب میں امتیازی حیثیت کی حامل تھیں۔ قبولِ اسلام اور ہجرت آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا ہجرت نَبوی سے پہلے ایمان لے آئی تھیں، رسولِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بیعت کرکے اپنے صاحبزادے حضرت سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہمراہ مدینۂ منورہ زاد ہَااللہ شرفاً وَّ تعظیماً ہجرتِ کرکے ( وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ)( ترجمۂ کنز الایمان: اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) کی اس مقدّس جماعت میں شامل ہوئیں جسے اللہ پاک نے پارہ11سورۃ التوبۃ کی آیت نمبر 100 میں اپنی رضا اورجنت کی بشارت سنائی۔ (طبقاتِ ابن سعد،ج 8،ص34 ماخوذاً) اولاد آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے 3 بیٹے تھے (1)حضرت سیدنا زبیررضی اللہ تعالٰی عنہ (2)حضرت سیدنا سائب رضی اللہ تعالٰی عنہ (3)عبدالکعبہ(سیر اعلام النبلاء ،ج3،ص516) جرأت و بہادری آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا نہایت بہادر اور حوصلہ مند خاتون تھیں۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تاریخِ اسلام میں دشمنِ اسلام کو واصلِ جہنم کرنے والی سب سے پہلی خاتون آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا ہی ہیں۔ (الاصابہ ،ج7،ص214) چنانچہ جنگ خندق میں ایک ایسا موقع بھی آیا کہ جب یہودیوں نے دیکھا کہ ساری مسلمان فوج خندق کی طرف مصروفِ جنگ ہے تو جس قلعہ میں مسلمانوں کی عورتیں اور بچے پناہ گزین تھے یہودیوں نے اچانک اس پر حملہ کر دیااور ایک یہودی دروازہ تک پہنچ گیا، حضرت صفیہرضی اللہ تعالٰی عنہا نے اس کو دیکھ لیا اور خیمہ کی ایک لکڑی اُکھاڑ کر اِس زور سے اُس یہودی کے سر پر ماری کہ وہ واصلِ جہنم ہوگیا۔(مسند بزار،ج 3،ص190، حدیث: 978 مفہوماً) چٹان کی طرح ڈٹ گئیںجنگِ احد میں جب مسلمانوں کا لشکر بکھر گیا تو آپ اکیلی کفّار پر نیزہ چلاتی رہیں یہاں تک کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آپ کی بہادری پر تعجب ہوا اور آپ کے فَرزَند حضرت سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا:اے زبیر! اپنی ماں اور میری پھوپھی کی بہادری تو دیکھو! بڑے بڑے بہادر بھاگ گئے مگر یہ چٹان کی طرح کفّار کے مقابلےمیں اکیلی لڑ رہی ہیں۔ (زرقانی علی المواہب،ج 4،ص490مفہوماً، جنتی زیور، ص504) صبرو تحمل غزوۂ احد میں جب آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا اپنے شہید بھائی سیّد الشہداء حضرت امیرحمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نعش مبارک دیکھنے کے لئے آنے لگیں تو سیّدِ عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا: صفیہ کو اِن کے پاس مت آنے دو کہ وہ اپنے بھائی کا حال دیکھ کر رنج و غم میں ڈوب جائیں گی مگر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ و اٰلہٖ وسلَّم سے اجازت لے کر اپنے بھائی کے پاس آئیں،اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ پڑھا اور کمالِ صبر کا مظاہرہ فرماتے ہوئے کہا: میں خدا کی راہ میں اسے کوئی بڑی قربانی نہیں سمجھتی، پھر مغفرت کی دعا مانگ کر وہاں سے چلی آئیں۔ (سیرۃ النبویہ لابن ہشام،ص339 مفہوماً) وفات آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا تِہَتَّر 73 برس کی عمر پاکر 20 سن ہجری امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دورِ خلافت میں مدینۂ منورہ زادہَا اللہ شرفاً وَّ تعظیماً میں وفات پائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔( زرقانی علی المواہب ،ج4،ص490)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ماہنامہ فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی
Comments