Book Name:Sachi Tauba Shab-e-Braat 1440
مگر بات یہ ہے کہ موت جب آتی ہے تو نہ شفاعت کام آتی ہے ، نہ سفارش فائدہ دیتی ہے اور نہ ہی دعائیں کارگر ہوتی ہیں اور موت اپنا شکار لے کر رہتی ہے۔ یہ کہہ کر وہ بھی چلے آتے ہیں (4)پھر حسىن و جمىل لڑکىوں کا گروہ اندر جاتا ہے اور وہ جا کر اس شہزادے کى قبر پر کہتى ہىں۔ ’’اے شہزادے! اگر ہمارے حُسن و جمال کى وجہ سے ، اگر ہمارى اداؤں کی وجہ سے ، اگر ہمارى جوانى کی وجہ سے اور اگر ہمارے رنگ و روپ کی وجہ سے تمہىں موت کے منہ سے بچاىا جاسکتا تو ہم سب اپنى جوانىاں قربان کردىتىں۔ لىکن حقیقت یہ ہے کہ جب موت آتى ہے تو کوئى شے بھی اسے ٹال نہىں سکتى۔ یہ کہہ کر وہ بھی چلی آتی ہیں۔ (5)اس کے بعد بادشاہ وزیروں کے ساتھ اندر جاتا ہے ، اور بادشاہ بھی ىہى جملے کہتا ہے کہ اے بىٹے! جو کچھ مىرے پاس تھا وہ سب مىں نے تمہىں بتادىا ، سب دکھا دىا ، اگر یہ بادشاہت ، اگر ىہ وزارت ، اگر ىہ طاقت ، اگر ىہ شان و شوکت ، اگر ىہ جاہ و حَشْمَت ، اگر ىہ سب کچھ تمہىں موت کے منہ سے بچا سکتا تو مىں ملک تم پہ قربان کردىتا ، بادشاہت تم پہ قربان کردىتا مگر تمہىں زندہ رکھتا ، اپنى آنکھوں کے سامنے رکھتا ، تمہیں مرنے نہ دیتا مگر حقیقت یہی ہے کہ جب موت آتى ہے تو بادشاہ کى بادشاہت نہىں بچاسکتى ، وزىروں کى وزارت نہىں بچاسکتى ، طبىبوں کى طِب نہىں بچاسکتى ، طاقتوروں کى طاقت نہىں بچا سکتى ، حسىنوں کا حُسن و جمال نہىں بچاسکتا ، اَلْغَرَض!دنیا کی کوئی بھی چیز موت سے نہیں بچا سکتی۔ بادشاہ ىہ جملے کہتا ہے اور پھردوبارہ اىک سال کے لىے الوداع کہہ کر چلا آتا ہے۔
اُ ن بزرگ نے جب ىہ جملے سُنے تو دل پہ چوٹ لگى اور سوچنے لگے کہ ىہ جو مال و دولت جمع کررہا ہوں ، ىہ جو دنىا کى آسائشىں سمىٹ رہا ہوں ، ىہ جو شرق و غرب مىں تجارت کررہا ہوں ، ىہ جو ہر وقت مال جمع کرنے مىں لگا ہوا ہوں ، یہ جو ہر وقت تجوریاں بھرے جا رہا ہوں ، یہ جو بڑے بڑے سفر کر کے پیسے کماتا ہوں اورہىرے جواہرات کو دىکھ کے خوش ہوتا رہتا ہوں ، ان کى چمک دمک مجھے خوشى سے