علمائے کرام، شخصیات ،اِسلامی بھائیوں اور اِسلامی بہنوں کے تأثرات

علمائے کرام اور دیگر شخصیات کے تأثرات(اقتباسات)

(1)مولانامحمد مشتاق حسین قادری (امام و مدرس جامع مسجد محمدیہ حنفیہ غوثیہ، مظفر آباد، کشمیر) ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ میں دنیا بھر میں نیکی کی دعوت، اِحیائے سنّت اور علمِ شریعت کو عام کرنے کے لئے خُصوصی طور پر دلوں میں مَحبَّتِ رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل واحد اور منفرد مجلّہ ہے۔ (2)مفتی منیر احمد سعیدی (جامعہ قادریہ طیبہ سیکٹرD.15 اورنگی ٹاؤن باب المدینہ کراچی) اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ قراٰن و سُنّت کی عالمگیر تحریک دعوتِ اسلامی زندگی کے ہر شعبے میں دین کی خدمات اور خَلْقِ خدا کی رہنمائی میں مصروفِ عمل ہے۔ ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ جاری فرماکر علما کے ساتھ ساتھ عوام کی رہنمائی کا بھی بہت اچھا ذریعہ مقرر فرمایا ہے۔ (3)پروفیسر ڈاکٹر مفتی محمد ظفر اقبال جلالی (پرنسپل و شیخ الحدیث جامعہ اسلام آباد و سربراہ شرعی بورڈ پاکستان) ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ موصول ہوا جسے دیکھ کر دل بہت مَسرور ہوا، دعوتِ اسلامی کی ہر میدان میں کوششیں قابلِ تعریف بھی ہیں اور قابلِ سَتَائش بھی۔”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ دعوتِ اسلامی کی قابلِ تعریف کاوِش ہے اور بِلا شک و شُبہ علمِ دین کا بیش بہا خزانہ ہے۔ اس ماہنامہ میں مختلف موضوعات پر مختصر مگر جامع انداز میں مواد پیش کیا گیا ہے اور وہ بھی عام فہم انداز میں۔ جس سے عوام الناس کو بڑی آسانی ہے اپنے عقائد و نظریات کی پختگی، اعمال کی درستگی اور احوال کی اصلاح ممکن بناسکتے ہیں۔ (4)علامہ عبد الحلیم نقشبندی (مہتمم و ناظم اعلی جامعہ انوار الاسلام غوثیہ رضویہ   چکوال،پنجاب پاکستان) ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ موصول ہوا پڑھ کر انتہائی خوشی ہوئی کہ اس ماہنامہ میں مختلف مَضَامِین ہیں جن میں دار الافتاء اہلسنت، محدّثِ اعظم پاکستان، امامِ اعظم ابو حنیفہ کے فقہی کارنامے اور دیگر عنوانات بھی موجود ہیں اس کے پڑھنے سے علمی و تحقیقی فِکر اُجاگر ہوئی ہیں اور اس ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ کے ذریعے معلومات میں اضافہ ہوگا۔

اسلامی بھائیوں کے تأثرات(اقتباسات):(5)میں نے پہلی بار ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ کا شمارہ مئی 2017ء پڑھا ہے، بہت متأثر ہوا تمام مضامین بہت اچھے اور توجّہ طلب ہیں۔(میاں محمد زاہد، میانوالی) (6)”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ کی اِشاعت بہت اچھا اِقدام ہے۔ عِلْمی طور پر بڑا مفید ہے کہ ہر چیز باحوالہ ہے، سارے سلسلے بہت پیارے اور ایک دوسرے سے بڑھ کرہیں خصوصاً ”کیسا ہونا چاہئے؟“ سلسلہ بہت ہی اچھا لگا اس کو مزید جاری رکھیں۔(قاری اللہ بخش فاروقی عطاری، میلسی) (7)”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ مارچ سے پڑھ رہا ہوں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ بہت پیاری کوشش ہے مَا شَآءَ اللّٰہ ۔(محمد ساجد عطاری، سردار آباد (فیصل آباد)

اسلامی بہنوں کے تأثرات (اقتباسات): (8)”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ بہت دلچسپ اور عِلْم و حکمت کا بھر پور خزانہ ہے یہ ماہنامہ ایسے عُنوانات سے سجایا گیا ہے کہ آج کے پُر فتن دور میں جس کی ضرورت تھی۔(ام برہان عطاریہ، باب المدینہ) (9)”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ کی مثال ایک پھول کی طرح ہے  کہ  ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا شخص اس کی خُوشبو (علم) سے مُستفیض ہو کر اپنے لئے راحت کا سامان کرسکتا ہے۔ (بنتِ جمیل عطاریہ) (10)”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ کی تو کیا بات ہے اس کی تشریف آوری سے پہلے دوسرے ماہنامے آتے تھے مگر اب صرف ماہنامہ فیضانِ مدینہ کا انتظار رہتا ہے۔(بنتِ نور محمد عطاریہ ، باب الاسلام،سندھ)

آپ کے سُوالات  کے جوابات

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے ہوئے خاص طور پر جمعہ میں اگلی صَف میں نابالغ سمجھ دار بچہ ہو تو جو اس کے پیچھے نمازی کھڑے نماز پڑھ رہے ہوں تو کیا ان کی نماز ہوجائے گی؟

سائل:قاری ماہنامہ فیضانِ مدینہ(باب المدینہ کراچی)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

سمجھدارنابالغ بچوں کی صف مَردوں کی صف سے پیچھے بنانے کا حکم ہے تاہم اگر کوئی سمجھدار نابالغ ایک بچہ مَردوں کی صف میں کھڑا ہوجاتا ہے تو اس سے اس صف میں موجود یا اس بچے کے بالکل پیچھے پچھلی صف کے نمازی کی نماز میں کچھ اَثر نہیں پڑتا اور ایسے ایک بچے کو مَردوں کی صف میں کھڑا ہونا بھی جائز ہے۔ امامِ اَہلِ سنّت اعلیٰ حضرت الشَّاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن اس ضِمن میں اپنے ایک فتوے میں کلام کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:”اور یہ بھی کوئی ضروری اَمرنہیں کہ وہ صف کے بائیں ہی ہاتھ کو کھڑاہو علماء اسے صف میں آنے اور مَردوں کے درمیان کھڑے ہونے کی صاف اجازت دیتے ہیں۔ درمختار میں ہے:”لَوْوَاحِداً دَخَلَ فِیْ الصَّفِّ۔“(یعنی اگر بچہ اکیلا ہو توصف میں داخل ہوجائے۔مترجم) مراقی الفلاح میں ہے:”اِنْ لَمْ یَکُنْ جَمْعٌ مِنَ الصِّبْیَانِ یَقُوْمُ الصَّبِیُّ بَیْنَ الرِّجَال“(اگر بچے زیادہ نہ ہوں تو بچہ مَردوں کے درمیان کھڑا ہوجائے۔ مترجم)بعض بے عِلْم جو یہ ظُلم کرتے ہیں کہ لڑکا پہلے سے داخلِ نماز ہے، اب یہ آئے تو اسے نیت بندھا ہوا ہٹا کر کنارے کردیتے اور خود بیچ میں کھڑے ہوجاتے ہیں یہ محض جہالت ہے، اسی طرح یہ خیال کہ لڑکا برابر کھڑا ہو تو مرد کی نماز نہ ہوگی غلط وخطا ہے جس کی کچھ اصل نہیں۔ فتح القدیرمیں ہے:”اَمَّا مُحَاذَاۃُ  الْاَمْرَدِ  فَصَرَّحَ الْکُلُّ بِعَدَمِ اِفْسَادِہٖ اِلَّامَنْ شَذَّ وَلَامُتَمَسِّکَ لَہُ فِی الرِّوَایَۃِ کَمَا صَرَّحُوْا بِہٖ وَلَا فِی الدِّرَایَۃ۔“(بے ریش بچے کے مَحاذِی ہونے پر تمام علماء نے تصریح کی ہے کہ نماز فاسد نہ ہوگی مگرشاذ طور پر کوئی فسادِ نماز کاقائل ہے اور اس کے لئے کوئی دلیل نہ روایت میں ہے جیسا کہ فقہا نے اس کی تصریح کی ہے اور نہ ہی درایت میں ہے۔مترجم) وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ وعِلْمُہُ جَلَّ مَجْدُہُ اَتَمُّ وَاَحْکَم۔ (فتاویٰ رضویہ،ج7،ص51)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مُجِیْب

مُصَدِّق

ابو الحسن جمیل احمد غوری العطاری المدنی

عبدہ المذنب ابوالحسن فضیل رضا العطاری عفا عنہ الباری

 

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ گھر میں اسلامی کتابیں موجود ہوں مثلا کسی نے گھر میں مدنی لائبریری بنائی اور وہ کتابیں اتنی ہیں کہ زکوٰۃ کے نصاب تک ان کی مالیت پہنچ گئی تو کیا ان کتابوں پر زکوٰۃ واجب ہوگی؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

صرف تین قِسم کے اَموال پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے: (1)ثَمن یعنی سونا چاندی تمام مُمالک کی کرنسی اور بانڈز بھی اسی میں شامل ہیں (2)مالِ تجارت (3)اور چرائی کے جانور۔

صورتِ مَسئولہ میں وہ اِسلامی کتابیں جیساکہ مالِ تجارت نہیں ہیں یعنی اُن کو بیچنے کی نیت سے خریدا نہیں گیا ہے، تو اُن کتابوں پر زکوٰۃ اصلاً واجب نہیں چاہے وہ لاکھوں کی مالیت ہی کی کیوں نہ ہوں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کتبـــــــــــــــــہ

عبدہ المذنب محمد فضیل رضا العطاری عفا عنہ الباری

 


Share