مال بیچنے کا وعدہ کرکے نہ بیچنا کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ مَتین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے بکر سے یہ بات کہی کہ میں یہ چیز آپ کو اتنے روپے میں دے دوں گا لیکن ابھی کوئی ایڈوانس (Advance)نہیں لیا اور نہ ہی بکر نے وہ چیز ابھی لی لیکن دوسرے دن بکر جب روپے لے کر پہنچ گیا تو زید نے کہا کہ میں بیچنا نہیں چاہتا تو کیا زید کا ایسا کرنا درست ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:”میں آپ کو یہ چیز اتنے کی دے دوں گا“یہ وعدۂ بیع (Promise to sell)ہے بَیْع نہیں ہے۔ اصل دارومدار جملہ کے استعمال اور عُرف کا ہے عُرفِ عام میں ان جملوں سے سودا کرنا مراد نہ لیا جاتا ہو تو یہ صرف وعدہ کے ہی الفاظ ہیں اور صرف وعدہ کرلینے سے سودا طے نہیں ہوجاتا سودا طے کرنے کے لئے ایسے الفاظ بولنا ضَروری ہےجس سے حتمی ڈیل(Final Deal) سمجھی جاتی ہو، جیسے خریدار کہے میں نے اتنے میں خریدی اور سامنے والا کہے ٹھیک ہے، یا بیچنے والا کہے اتنے میں سودا طے ہوا خریدار کہے مجھے منظور ہے یا ٹھیک ہے۔ یونہی کچھ افعال بھی ایسے ہوتے ہیں جس سے سودا ہوجاتا ہے ایسی صورت کو بیعِ تَعَاطی([1]) کہتے ہیں جیسے کوئی آواز لگا رہا ہے ہر مال اتنے کا، خریدار نے پیسے رکھے فروخت کنندہ (Seller) نے چیز خریدار (Buyer) کے حوالے کردی سودا ہوجائے گا۔
خلاصۂ کلام یہ کہ سودا ہونے اور وعدہ ہونے میں فرق ہے۔ چونکہ صورتِ مسئولہ میں بھی بکر نے اس سے وعدہ ہی لیا تھا لہٰذا زید اپنی چیز کو بیع (فروخت) کرنے سے مَنْع کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ ہاں وعدہ کو پورا کرنا مکارمِ اَخلاق (اچھے اخلاق میں سے) ہے مگر اس پر جَبْر نہیں کیا جاسکتا۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:جو لفظ محض استقبال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے کہ اس کے ساتھ سِین اور سَوفَ ملا ہو تو یا امر کے صیغہ کے ساتھ (ہو تو) بیع منعقد نہیں ہوتی۔(فتاویٰ عالمگیری،ج3،ص4)
صدرُالشّریعہرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بہارِ شریعت میں فرماتے ہیں: ”مستقبل کے صیغہ سے بیع نہیں ہوسکتی دونوں کے لفظ مستقبل کے ہوں یا ایک کا مثلاً خریدوں گا، بیچوں گا، کہ مستقبل کا لفظ آئندہ عقد صادر کرنے کے ارادہ پر دلالت کرتا ہے فِی الْحال عقد کا اِثبات نہیں کرتا۔(بہارشریعت،ج2،ص618مکتبۃ المدینہ)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:”اگر وعدہ پورا کرے تو بہتر ہے ورنہ وعدوں کو پورا کرنا اس پرلازم نہیں۔“(فتاویٰ عالمگیری،ج4،ص427)وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
سامان لینے کے بعد ریٹ کا تعین کرنا کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مُفْتِیانِ شرعِ مَتین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص ہر ماہ ایک دکان سے راشن لیتا ہے، اس طرح کہ ہر ماہ اس دکان دار کو اَشْیَا کی لسٹ (List) دے دیتا ہے، اور دکاندار تین چار دن بعد سامان اس کے گھر پہنچا دیتا ہے اور لسٹ میں ہر چیز کا ریٹ اور کل رقم (Total amount) لکھ کردے دیتا ہے اور وہ شخص اسے رقم ادا کردیتا ہے۔ کیا یہ خریدو فروخت جائز ہوئی؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:پوچھی گئی صورت بیعِ تَعَاطِی کی ہے جس میں ایجاب و قبول لفظوں کے بجائے قیمت اور سودے کے لین دین کے وقت پایا جا رہا ہے اور ایسی حالت میں کہ خریدنے والے کو ہر چیز کے ریٹ کا بھی عِلْم ہے۔ لہٰذا پوچھی گئی صورت میں کسی قسم کی کوئی خرابی نہیں۔ یہ صورت تو نہایت ہی نفیس اور فقہی پیچیدگیوں سے پاک ہے البتہ اسی سے ذرا مختلف صورت جو کہ عام طور پر لوگ کرتے ہیں کہ پہلے پورا مہینا مثلاً سودا لیتے رہے پھر اس کا حساب اور ریٹ کا تعین کیا، اس پر فقہائےکرام نے بہت ہی زیادہ کلام کیا ہے اور بالآخر اسے بھی جائز ہی کہا ہے چنانچہ ”دُرِّمُخْتَار“ میں ہے: انسان جو چیزیں دکانداروں سے لے آتے ہیں، اور انہیں استعمال کرنے کے بعد ان کی قیمت کا حساب کرتے ہیں، تو یہ استحسان کے طور پر جائز ہے۔(درمختار،ج7،ص28)
صدرُالشّریعہ حضرت علّامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی ”بہارِ شریعت“ میں فرماتے ہیں:دوکانداروں کے یہاں سے خرچ کے لیے چیزیں مَنْگالی جاتی ہیں اور خرچ کرڈالنے کے بعد ثمن (یعنی چیزوں کی قیمت) کا حساب ہوتا ہے، ایسا کرنا استحساناً جائز ہے۔(بہارِ شریعت،ج2،ص624)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
رَدِّی کاغذات کی خرید و فروخت کرنا کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مُفتیانِ شرع ِمَتین اس مسئلے کے بارے میں کہ اُردو یا اور زَبان میں لکھے ہوئے کاغذ یا اخبارات کی دکانداروں کے ہاتھ خرید وفروخت کرنا اور اس سے مُنافع حاصل کرنا کیسا ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:رَدِّی کاغذات یا اخبارات کی وہ مقدار جو عرفاً مال سمجھی جاتی ہو اس کی خریدوفروخت جائز ہے اور اس پر ملنے والا منافع بھی جائز ہے۔
البتہ دو باتیں پیشِ نظر رہیں:(1)اگر ان میں آیات و احادیث یا اَسمائے مُعَظَّمَہ(یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ،انبیائے کرام اور فرشتوں وغیرہ کے نام) یا مسائلِ شرع ہوں تو ان کو دکانداروں کے ہاتھوں بیچنے کی اِجازت نہیں اور (2)اگر ان کاغذات میں یہ مُقَدَّس تحریرات نہ ہوں یا ان کو علیحدہ کرلیا گیا ہو تو اب بیچنے میں حَرَج نہیں چنانچہ امامِ اَہلِ سنّت، اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن اسی قسم کے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”جبکہ ان میں آیت یا حدیث یا اسمائے مُعَظَّمَہ یا مسائلِ فِقْہ ہوں تو (بیچنا) جائز نہیں ورنہ حَرَج نہیں ان اَوْرَاق کو دیکھ کر اَشیائے مذکورہ ان میں سے علیحدہ کرلیں پھر بیچ سکتے ہیں۔ عالمگیری میں ہے:’’لَایَجُوْزُ لَفُّ شَیْئٍ فِی کَاغَذٍ فِیْہِ مَکْتُوْبٌ مِنَ الْفِقْہِ وَفِی الْکَلامِ اَلْاَوْلٰی اَنْ لَایَفْعَلَ، وَفِی کُتُبِ الطِّبِّ یَجُوْزُ، وَلَوْ کَانَ فِیْہِ اِسْمُﷲِ تَعَالٰی اَوْ اِسْمُ النَّبِیِّ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یَجُوْزُ مَحْوُہُ لِیَلُفَّ فِیْہِ شَیْئٌ“ وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ یعنی کسی چیز کو کسی ایسے کاغذ میں لپیٹنا کہ جس میں عِلمِ فقہ کے مسائل لکھے ہوں جائز نہیں، اور کلام میں بہتر یہ ہے کہ ایسا نہ کیا جائے البتہ علمِ طب کی کتابوں میں ایسا کرنا جائز ہے اور اگر اس میں اللہ تعالٰی کا مُقَدَّس نام یا حضور علیہِ الصَّلٰوۃُ والسَّلام کا اِسمِ گرامی تحریر ہو تو اسے مٹا دینا جائز ہے تاکہ اس میں کوئی چیز لپیٹی جاسکے اور اللہ تعالٰی سب کچھ بخوبی جانتا ہے۔(فتاویٰ رضویہ، ج23،ص400)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Comments