ایک ٹھوکر میں اُحُد کا زلزلہ جاتا رہا/ واللہ جو مل جائے مرے گُل کا پسینہ

ایک ٹھوکر میں اُحُد کا زَلزلہ جاتا رہا

رکھتی ہیں کتنا وقار اللہ اکبر ایڑیاں

(حدائقِ بخشش،ص87)

الفاظ و معانی: اُحُد:مدینَۂ منورہ کا ایک مُبارک پہاڑ۔ وقار:قدر و منزلت۔

شرح کلامِ رضا:حُضُورِ اکرم،نورِ مُجَسَّم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مُبارک ایڑیاں اس قدر عظمت و جَلال رکھتی ہیں کہ ان کی ایک ٹھوکر سے جَبَلِ اُحُد کا زَلزَلہ ختم ہوگیا اور وہ ساکن ہو(یعنی ٹھہر)گیا۔

اس شعر میں درج ذیل حدیثِ مبارک کی طرف اشارہ ہے: حضرتِ سیِّدُنا انَسرضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینۂ منوَّرہ، سردارِمکّۂ مکرّمہصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صِدِّیق،حضرتِ سیِّدُناعمر فاروقِ اعظم اورحضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنیرضی اللّٰہ تعالٰی عنہُم اجمعِین کےساتھ اُحُد پہاڑ پر تشریف لے گئے تو وہ ہلنے لگا۔آپ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُسے ٹھوکر مارکر فرمایا:اُثْبُتْ اُحُدُ فَاِنَّمَا عَلَیْكَ نَبِیٌّ وَّ صِدِّیقٌ وَّشَہِیْدَانِ یعنی اے اُحُد! ٹھہر جا، کیونکہ تیرے اوپر ایک نبی، ایک صِدّیق اور دو شہید ہیں۔(بُخاری،ج2،ص527،حدیث:3686)

اس حدیثِ پاک کے تحت حکیم الامّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن فرماتے ہیں:معلوم ہوا کہ اللہ (عَزَّوَجَلَّ) کے مقبول بندے ساری خَلقَت (یعنی شَجَروحَجر دریاوپہاڑسبھی) کے مَحبوب (اور پیارے) ہوتے ہیں،ان کی تشریف آوَری سے سب خوشیاں مَناتے ہیں، انہیں پتّھر اور پہاڑ بھی جانتے ہیں۔(مزید فرماتے ہیں:) یہ بھی معلوم ہوا کہ حُضُور(صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) سب کے اَنجام (یعنی اچّھا یا بُرا خاتِمہ ہونے) سے خبردار ہیں کہ فرمایا:ان میں سے دو صَحابہ شہیدہوکروفات پاجائیں گے۔(مِراٰۃ  المناجیح،ج8،ص408 ملتقطاً)

وَاللہ جو مل جائے مرے گُل کا پسینہ

مانگے نہ کبھی عطر نہ پھر چاہے دلہن پُھول

(حدائقِ بخشش،ص78)

الفاظ و معانی:وَاللہ:اللہ کی قسم۔ گُل:پھول۔ اس شعر میں ”گُل“ سے سرکارِ مدینہصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی ذاتِ گرامی مراد ہے۔

شرح کلامِ رضا:اللہ عَزَّ وَجَلَّ  کی قسم!اگرسرکارِ مدینہصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مُبارک پسینہ مل جائے تو پھر دلہن کو خوشبو کے لئے کسی عطر اور پھول کی ضَرورت نہیں رہے گی۔

ایک شخص بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکرعرض گزارہوا: یَارسولَ اللہ! میں اپنی بیٹی کی شادی کررہا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ آپ اس میں میری مدد کریں۔ سرکارِ مدینہ،صاحِبِ مُعطَّر پسینہصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کل تم ایک کُھلے مُنہ والی شیشی اور اور ایک لکڑی لے کر آنا۔ اگلے دن وہ صاحب ایک کھلے منہ والی شیشی اور لکڑی لے کر حاضر ہوئے، پیارے آقاصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے دونوں نورانی بازوؤں سے اس شیشی میں پسینہ ڈالنا شروع کیا یہاں تک کہ وہ بھرگئی، پھر ارشاد فرمایا:اسے لے لو اور اپنی بیٹی سے کہو کہ جب وہ خوشبو لگانا چاہے تو اس لکڑی کو شیشی میں ڈال کر استعمال کرے۔(مجمع الزوائد ،ج8،ص503،حدیث:14056ملخصاً)

دُنیا پسند کرتی ہے عطرِ گُلاب کو

لیکن مجھے نبی  کا  پسینہ  پسند ہے

 


Share

Articles

Gallery

Comments


Security Code